بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈیری والوں کا بھینس کے دودھ میں گائے کا دودھ ملا کر فروخت کرنا


سوال

ہمارے علاقہ میں چند ڈیریاں ہیں، وہ بھینس اور گائے کا دودھ مکس کر کے دیتے ہیں، اور وہ دودھ دکان والوں میں سپلائی ہوتا ہے، بھینس اور گائے کے دودھ میں فرق بھی ہے، اس کے متعلق چند امور کے جواب مطلوب ہیں:

1. ڈیری والوں کا گائے کے دودھ کو بھینس کے دودھ والے ریٹ پر سپلائی کرنا صحیح ہے؟

2. جن دکانوں پر دودھ سپلائی ہو رہا ہے ان دکان داروں پر  بھینس کے دودھ کے حساب سے قیمت کی ادائیگی لازم ہے؟

3. ان دکان داروں کا اس دودھ کو بھینس کے دودھ کا نام دے کر آگے بیچنا کیسا ہے؟

4. ڈیری والے حضرات کے صدقہ کو قبول کرنا یا ان کی دعوت قبول کرنا یا ان کے پیسے استعمال کرنا کیسا ہے؟

5. اگر دکان داروں کو معلوم ہو کہ ڈیری والے گائے اور بھینس کا دودھ مکس کر کے بیچتے ہیں اور اس دکان سے خریدنے والے لوگوں کو بھی معلوم ہو کہ دودھ مکس ملتا ہے لیکن  ریٹ  بھینس کے دودھ کا ہے تو اس صورت کا کیا حکم ہے؟

مطلوبہ امور کی وضاحت فرما کر ممنون فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ عام طور پر بازار میں دودھ کی دکانوں پر  جو دودھ فروخت ہوتا ہے وہ بھینس کے دودھ کے عنوان سے فروخت کیا جاتا ہے اور اِسی کا عرف و رواج بھی ہے، چنانچہ جب عام دودھ کی دکانوں میں فروخت کیا جانے والا دودھ بھینس کا دودھ ہوتا ہے تو اس دودھ میں گائے کا دودھ ملا کر فروخت کرنا جائز نہیں ہو گا، ایسا کرنا دھوکہ ہے،  لہذا بھینس کے دودھ میں گائے کے دودھ کی ملاوٹ ناجائز ہو گی۔

پھر ڈیری والوں کا بھینس کے دودھ میں گائے کا دودھ ملانا ہی چونکہ دھوکہ کا باعث ہے؛ اس لیے ملاوٹ شدہ دودھ  سپلائی کرنا بھی  درست نہیں؛ کیوں کہ اگر ڈیری والا دکان دار کو ملاوٹ سے متعلق سچ بتا بھی دے تو ممکن ہے کہ  دکان دار  اپنے کسٹمر کو اس ملاوٹ کی اطلاع کیے بغیر فروخت کرے اور اس دھوکہ کا باعث چونکہ ڈیری والا بنتا ہے، اس لیے اس طرح ملاوٹ کر کے دودھ  سپلائی کرنا ناجائز ہے۔

اب سائل کے سوالات کے جوابات بالترتیب یہ ہیں:

1.اگر ڈیری والے دکان داروں کو گائے اور بھینس کا ملا ہوا دودھ خالص بھینس کا  کہہ کر نہ بیچتے ہوں، بلکہ بتا کر بیچتے ہوں کہ اِس میں گائے کا دودھ بھی شامل ہے، یا دکان داروں کو پہلے سے یہ بات معلوم ہوتی ہو یا اِس ملاوٹ کا اس علاقے کےدودھ والوں میں عرف ہو تو ایسی صورت میں ڈیری والوں کے لیے ملاوٹ والا دودھ بھینس کے دودھ کے لیے   مخصوص رقم کے عوض فروخت کرنا جائز ہے اور اگر ڈیری والے ملاوٹ والے دودھ کو خالص بھینس کا دودھ  کہہ کر فروخت کرتے ہوں یا کسی بھی طرح دکان داروں کو اِس بات کا علم نہ ہوتا ہو اور نہ ہی دودھ والوں میں اِس کا عرف ہو تو ایسی صورت میں دھوکہ دہی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ایسا کرنا جائز نہیں ہو گا۔

2. اگر ڈیری والا بھینس کے دودھ میں گائے کا دودھ ملا کر فروخت کرتا ہے  اور یہ بات دکان دار کو بھی معلوم ہو تو ایسی صورت میں دونوں (ڈیری والا اور دکان دار)باہمی رضامندی سے جو ریٹ طے کر لیں، وہ درست ہے، خواہ وہ ریٹ بھینس کے دودھ کا ہو یا اُس سے کچھ کم، لیکن اگر دکان دار اپنے کسٹمر کو سچ بتائے بغیر فروخت کرے گا تو  دھوکہ کا باعث ہونے کی وجہ سے ڈیری والا بھی گناہ گار ہو گا۔

3. دکان داروں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ایسے ملاوٹ والے دودھ کو خالص بھینس کا دودھ  کہہ کر فروخت کریں۔

4. ڈیری والے کا ملاوٹ شدہ دودھ سپلائی کرنا دھوکہ کا باعث ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے اور اس کی وجہ سے وہ گناہ گار بھی ہو گا لیکن اگرڈیری والا خریدار کو حقیقتِ حال سے مطلع کر کے دودھ فروخت کرتا ہو تو ایسی صورت میں اُس کی کل آمدنی حلال ہے، اس کا صدقہ، ہدیہ اور دعوت قبول کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور اگر حقیقت نہ بتائی جاتی ہو بلکہ بغیر بتائے بھینس کے دودھ میں کچھ حصہ گائے کے دودھ کا ملا کر فروخت کیا جاتا ہو تو ایسی صورت میں  دونوں کی قیمت کا تفاوُت دکان دار کے لیے حلال نہیں ہوگا۔

اب اگر یہ تفاوت بہت تھوڑا ہو اور حلال آمدنی زیادہ  ہو تو ایسےڈیری والوں  کا صدقہ، ہدیہ وغیرہ قابلِ قبول ہے، لیکن اگر یہ معلوم ہو کہ اُس کی حلال آمدنی مغلوب ہے تو ایسی صورت میں اُس کے صدقات اور ہدایا قبول نہیں کرنا چاہیے۔

باقی حرام آمدنی کا مصرف یہ ہے کہ اُس کو اُس کے اصل مالک تک پہنچا دیا جائے، لیکن اگر اصل مالک تک پہنچانا ممکن نہ ہو تو ثواب کی نیت کے بغیر کسی مستحق کو دے دیا جائے۔

5. اگر خریدار کو اس بات کا علم ہو کہ جو دودھ وہ خرید رہا ہے وہ ملاوٹ والا ہے اور وہ خود اس کو استعمال کرتا ہو، مزید کسی کو بغیر بتائے فروخت نہ کرتا ہو تو ایسی صورت میں چونکہ دھوکہ ناپید ہے اِس لیے یہ صورت جائز ہے پھر اس صورت میں اگر اس کو بتا دیا جائے کہ  اس کی یہ قیمت ہے اور وہ بخوشی اس دودھ کو خریدتا ہے تو ایسی صورت میں جو بھی ریٹ طے کیا جائے، وہ جائز ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هریرة رضي اللّٰه عنه أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم قال: من غش فلیس منا".

(سنن الترمذي، باب ما جاء في کراهیة الغش في البیوع، ۱؍۲۴۵)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"«‌رجل ‌أراد ‌أن ‌يبيع السلعة المعيبة وهو يعلم يجب أن يبينها فلو لم يبين قال بعض مشايخنا يصير فاسقا مردود الشهادة قال الصدر الشهيد لا نأخذ به كذا في الخلاصة.»"

 (الباب العشرون في البياعات المكروهة والأرباح الفاسدة/ 3/ 210/ رشیدیہ)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لايقبل الهدية، ولايأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع".

(5 / 342، الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات، ط: رشیدیہ)

وفیہ أیضاً:

"آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولايأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط". 

(5 / 343، الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات، ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100700

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں