بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دائرۂ اسلام سے خارج ہونے کی قسم کھانے کا حکم


سوال

  اگر کوئی مسلمان شخص کسی بات کی وجہ سے غمزدہ اور دل براشتہ ہو کر قسم کھاتا ہے اور وعدہ کرتا ہے اپنی والدہ یا والد کو مخاطب کرکے کچھ یوں کہتا ہے کہ میرا وعدہ ہے،میں قسم کھاتا ہوں کہ آج کے بعد آپ سے بات کی تو میں کافر اور میں یہ بات داڑھی پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہوں ۔بعد میں وہ شخص شرمندہ اور نادم ہوتا ہے کہ بنا سوچے سمجھے کیوں بول دیا؟ کیا وہ شخص وعدہ یا قسم توڑنے کی صورت میں کافر ہوجائے گا؟ یا پھر اس پر کفارہ لازم آئے گا؟ اگر کفارہ آئے گا تو کس طرح ادا کرے گا؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں اگر مذکورہ شخص نے  اپنے والد یا والدہ کو مخاطب کر کے یہ  قسم کھائی تھی کہ"میں قسم کھاتا ہوں کہ آج کے بعد آپ سے بات کی تو میں کافر"، تو اس طرح قسم کھانے سے مذکورہ شخص  کافر نہیں ہوا،البتہ ان الفاظ سے قسم منعقد ہوجاتی  ہے، اس لیے یہ شخص والد یا والدہ سے بات کرے اور پھر قسم کا کفارہ ادا کرے۔تاہم  جذبات  میں اس قسم کی  قسم کھانا بڑا گنا ہ ہے، اس لیے  مذکورہ  شخص کو اپنی اس قسم پر توبہ کرنی چاہیے ۔

قسم کا کفارہ یہ ہے کہ  دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا ئے  یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دے ( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم )اور اگر جو دے تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو) دے،  یا دس فقیروں کو  ایک ایک جوڑا کپڑا دے دے اور اگر مالی حالت ایسی ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتا ہے اور نہ کپڑے دے سکتا ہے تو قسم کے کفارہ کی نیت سے مسلسل تین  روزے رکھے، اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے  تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزے رکھے۔

الدر المختار  مع ردالمحتار میں ہے:

"(و) القسم أيضا بقوله (إن فعل كذا فهو) يهودي أو نصراني أو فاشهدوا علي بالنصرانية أو شريك للكفار أو (كافر) فيكفر بحنثه لو في المستقبل، أما الماضي عالما بخلافه فغموس.

واختلف في كفره (و) الأصح أن الحالف (لم يكفر) سواء (علقه بماض أو آت) إن كان عنده في اعتقاده أنه (يمين وإن كان) جاهلا. و (عنده أنه يكفر في الحلف) بالغموس وبمباشرة الشرط في المستقبل (يكفر فيهما) لرضاه بالكفر."

وفی الرد :

"(قوله وعنده أنه يكفر) عطف تفسير على قوله جاهلا. وعبارة الفتح: وإن كان في اعتقاده أنه يكفر به يكفر لأنه رضي بالكفر حيث أقدم على الفعل الذي علق عليه كفره وهو يعتقد أنه يكفر إذا فعله اهـ."

(کتاب الأیمان،ج:3،ص:718،ط:سعید)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"ومن حلف على معصية كعدم الكلام مع أبويه أو قتل فلان...وجب الحنث والتكفير لأنه أهون الأمرين."

(کتاب الإیمان،ج:3، ص:728، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو قال: إن فعل كذا فهو يهودي، أو نصراني، أو مجوسي، أو بريء من الإسلام، أو كافر، أو يعبد من دون الله، أو يعبد الصليب، أو نحو ذلك مما يكون اعتقاده كفرًا فهو يمين استحسانًا، كذا في البدائعحتى لو فعل ذلك الفعل يلزمه الكفارة، وهل يصير كافرًا؟ اختلف المشايخ فيه، قال: شمس الأئمة السرخسي - رحمه الله تعالى -: والمختار للفتوى أنه إن كان عنده أنه يكفر متى أتى بهذا الشرط، ومع هذا أتى يصير كافرًا لرضاه بالكفر".

(کتاب الایمان،الباب الثاني فيما يكون يمينا وما لا يكون يمينا ،الفصل الأول في تحليف الظلمة وفيما ينوي الحالف غير ما ينوي المستحلف،ج:2،ص:52،ط:رشیدیہ)

 الدرالمختار  میں ہے:

"وکفارته تحریر رقبة أو إطعام عشرة مساکین أو کسوتهم بما یستر عامة البدن وإن عجز عنها وقت الأداء صام ثلاثة أیام ولاء."

(کتاب الأیمان،ج:3،ص:725،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102518

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں