بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

داڑھی اور سرکے بالوں کا حکم


سوال

1- جو لوگ بال آدھےسر کے کٹواتے ہیں اور  آدھےسر کے چھوڑ دیتے ہیں جیسا کہ آج کل  ہر  نوجوان کا فیشن ہے، جس کو فوجی کٹ اور وغیرہ کہتے ہیں  تو اس اس طرح کرنا کیسا ہے؟  اور اس حالت میں نماز ہو جائے گی؟ 

2-اور اسی طرح ڈارھی کا بھی یہی سوال  ہے؟

جواب

1-سر کے بالوں کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ یا تو  سر کے پورے بال رکھے جائیں یا پورے کاٹے جائیں، سر کے کچھ بال کاٹنا اور کچھ چھوڑدینا منع ہے، اسے حدیث میں "قزع" سے تعبیر کرکے اس کی ممانعت کی گئی ہے،  اور  "قزع"   کی مختلف صورتیں ہیں، حاصل ان کا یہی ہے کہ سر کے بال کہیں سے کاٹے جائیں اور کہیں سے چھوڑ دیے  جائیں،  یہ اگرچہ مكروہ تحریمی ہے، تاہم اس حالت میں نماز ہوجائے گی ۔

 2-داڑھی تمام انبیائے کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی سنت، مسلمانوں کا قومی شعار اور مرد کی فطری اور طبعی چیزوں میں سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شعار کو اپنانے کے لیے اپنی امت کو ہدایات دی ہیں اور اس کے رکھنے کا حکم دیا ہے، اس لیے جمہور علمائے امت کے نزدیک ایک مشت داڑھی  رکھنا واجب  ہے،اور اس کو کترواکریا منڈوا کر ایک مشت سےکم کرنا حرام اور  کبیرہ گناہ ہے، البتہ  شرعی حدود میں رہتے ہوئے خط بنوانا جائز ہے، البتہ خط کے نام پر  آج کل مختلف انداز کی جو داڑھیاں بنائی جارہی ہیں، وہ  سنت کے خلاف ہے، اس سے  اجتناب کرنا  ضروری ہے۔

مسند بزار میں ہے:

"عن أنس؛ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: خالفوا على المجوس جزوا الشوارب وأوفوا اللحى."

(مسند انس ابن مالك،ج:13،ص:90. الرقم"6446،ط:مكتبة العلوم والحكمة)

"ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے "بزار" نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مجوسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔"

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"ولا بأس للرجل أن يحلق وسط رأسه ويرسل شعره من غير أن يفتله وإن فتله فذلك مكروه لأنه يصير مشابها ببعض الكفرة والمجوس في ديارنا يرسلون الشعر من غير فتل ولكن لا يحلقون وسط الرأس بل يجزون الناصية كذا في الذخيرة.ويجوز حلق الرأس وترك الفودين إن أرسلهما وإن شدهما على الرأس فلا كذا في القنية. يكره القزع وهو أن يحلق البعض ويترك البعض قطعا مقدار ثلاثة أصابع كذا في الغرائب."

(كتاب الكراهية،الباب التاسع عشر،ج:5،ص:357،ط:رشيديه)

الدرالمختار مع الردالمحتارمیں ہے:

"وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة، ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد، وأخذ كلها فعل يهود الهند ومجوس الأعاجم ."

(كتاب الصوم،ج:2،ص:418،ط:سعيد)

العرف الشذی میں ہے:

"وأما تقصیرُ اللحیة بحیثُ تصیرُ قصیرة من القبضة، فغیرُ جائزٍ فی المذاهب الأربعة."

( کتاب الآداب، باب ما جاء في تقلیم الأظفار، 4/162، دار الکتب العلمیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144405101815

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں