بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

داغنے کے ذریعے علاج کرنا


سوال

ہاتھ اور پاؤں پر علاج کیلے  داغ لگانا کیسا ہیں؟

جواب

مذکورہ علاج کو عربی میں ’’کیّ‘‘کہتے ہیں جس کا اردو ترجمہ ہے:’’داغنا‘‘۔اس سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض روایات میں ممانعت بھی منقول ہے اور بعض احادیث مبارکہ میں اس کی اجازت اور اس علاج کو اختیار کرنے کا ذکر بھی آتاہے،فقہاء لکھتے ہیں کہ اگر دیگراسباب کے ذریعہ مرض کا علاج ممکن ہوتو ’’داغنے‘‘سے احتراز کیاجائے اور اگر کسی مرض کا علاج کسی اور ذریعے سے ممکن نہ ہو اور یہ بھی یقین ہو کہ صرف’’داغنے‘‘سے ہی فائدہ ہوسکتاہے اس صورت میں ’’داغنے‘‘کی اجازت ہے ،اس طرح دونوں احادیث میں تطبیق ہوجاتی ہے۔چنانچہ مشکوۃ شریف میں دونوں طرح کی احادیث مبارکہ کو جمع کیاگیاہے ،

ممانعت اور جواز کی احادیث درج ذیل ہیں:۔

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شفا تین چیزوں میں ہے: بچھنے والی سینگی لگانے میں، یا شہد پینے میں خواہ خالص شہد پیا جائے یا پانی وغیرہ میں ملا کر پیا جائے اور آگ سے داغنے میں ۔ لیکن میں اپنی امت کو داغنے سے منع کرتا ہوں‘‘۔

اور اجازت کی حدیث درج ذیل ہے:

’’ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ احزاب (کہ جس کو غزوہ خندق بھی کہتے ہیں )کے دن حضرت ابی کی رگ ہفت اندام پر تیر آ کر لگا (جس سے خون جاری ہو گیا ) تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو داغ دیا، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زخم کے منہ کو داغنے کا حکم فرمایا یا خود اپنے دست مبارک سے داغا تاکہ خون بند ہو جائے ‘‘۔

دونوں طرح کی احادیث ذکرکرنے کے بعد مشکوۃ شریف کے شارح علامہ نواب قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ نے مفصل تشریح اور تطبیق لکھی ہے ،مناسب معلوم ہوتاہے کہ وہ مکمل تفصیل ذیل میں درج کی جائے،ملاحظہ ہو: ’’سفر السعادۃ کے مصنف کے مطابق علماء کہتے ہیں کہ اس حدیث میں تمام مادی ( جسمانی ) امراض کے علاج معالجہ کی طرف راہنمائی و اشارہ ہے کیونکہ مادی امراض یا تو دموی ہوتے ہیں یا صفراوی یا بلغمی ہوتے ہیں یا سوداوی ۔چنانچہ اگر کوئی مرض دموی یعنی فساد خون کی بنا پر ہوتا ہے تو اس کا علاج یہ ہے کہ اس کو جسم سے باہر نکال دیا جائے جس کی صورت پچھنے لگوانا ہے اور باقی تینوں صورتوں میں مرض کا بہترین علاج اسہال ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہد کے ذریعے اس طرف متوجہ کیا کہ اسہال کے لئے شہد ایک بہترین اور معتدل دوا کا کام دیتا ہے۔ نیز آگ سے داغنے کے ذریعے اس طرف اشارہ کیا کہ اگر مرض کی نوعیت ایسی ہو کہ طبیب و معالج اس کے علاج سے عاجز ہو جائیں تو پھر آگ سے داغا جائے کیونکہ یہ جب کوئی مغلظ باغی ہو جاتی ہے اور اس کا مادہ منقطع نہیں ہوتا تو اس کے انقطاع کا واحد ذریعہ اس کو داغ دینا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ" آخر الدواء الکی"یعنی آخری دوا داغنا ہے۔ رہی یہ بات کہ داغنا جب ایک علاج ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت کیوں فرمائی؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب داغنے کو اتنی زیادہ اہمیت دیتے تھے اور ان کا یہ عقیدہ ہو گیا تھا کہ مادہ مرض کا باعث ہے اس کے دفیعہ کے لئے داغنا یقینی ہے ۔ چنانچہ ان کے یہاں یہ مشہور تھا کہ"آخر الدوء الکی" ۔ظاہر ہے کہ یہ بات اسلامی عقیدے کے سراسر خلاف ہے کیونکہ کوئی بھی علاج خواہ وہ کتنا ہی مجرب کیوں نہ ہو یقین کا درجہ نہیں رکھ سکتا، صرف ظاہری سبب اور ذریعہ ہی سمجھا جا سکتا ہے یقینی شفا تو صرف اللہ تعالیٰ کے حکم پر موقوف ہے ۔

حاصل یہ کہ کسی عضو کو داغنا یا جلانا مکروہ ہے ہاں اگر کوئی واقعی ضرورت پیش آجائے اور طبیب خاذق یہ کہے کہ اس مرض کا آخری علاج داغنا ہی ہے تو پھر داغنا جائز ہوگا ۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100603

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں