بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دفتری اخراجات اورملازمین کی تنخواہ میں زکوٰة کی مد استعمال کرنے کاحکم


سوال

آپ سے یہ فتویٰ معلوم کرنا تھا کہ کیا ہم لوگوں سے زکوٰة کے پیسے وصول کرکے درج ذیل کاموں میں خرچ کرسکتے ہیں ۔1۔ زکوٰة کے پیسوں میں سے ٪83 غریب بچوں زکوٰة کے مستحق خاندان سے تعلق رکھنے والے کو تعلیم اور کھانے پینے کے لیے نقد دئیے جائیں گے۔ پیسے بچوں کے والدین یا رکھوالے کو دئیے جائیں گے اوریہ کہا جائے گا کہ یہ پیسے صرف بچے کی پڑھائی اور کھانے پینے کے اخراجات کے لیے ہیں باقی ٪17 ان ملازمین کی تنخواہوں اور دفتری اخراجات میں استعمال ہوں گے جو ان بچوں تک پیسے پہنچارہے ہوں گے اوراس بات کا خیال رکھیں گے کہ بچے کی پڑھائی پہلے سے بہتر ہورہی ہے۔2۔ کیا زکوٰة کی رقم سے ہم مدرسے میں پڑھنے والے بچوں کو عصری تعلیم دینے کے لیے استاد رکھ سکتے ہیں اور ان اساتذہ کی تنخواہ زکوٰة کے پیسوں سے دی جائے گی۔3۔کیا ہم اسکول بیگ، یونیفارم اور کتابیں زکوٰة کے پیسوں سے خرید کر مدرسے کے بچوں کو دے سکتے ہیں ؟یہ چیزیں ان کی ملکیت میں دیدی جائیں گی اور واپس نہیں لی جائیں گی۔

جواب

صورت مسئولہ میں زکوٰة جونقدیت کی صورت میں بچوں کے والدین یاولی سرپرست کو دیدی گئی اتنی مقدارزکوٰة دینے والوں کی زکوٰة اداء ہوگئی ، زکوٰة وصول کرلینے کےبعد والدین یا سرپرست کو اختیارہے چاہے بچے کی تعلیمی ضرورت میں خرچ کریں چاہےدیگرضروریات میں، اس بارےمیں کوئی پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ اسی طرح جوبستے،یونیفارم،کتابیں وغیرہ زکوٰة کی رقم سے خریدکربچوں کی ملکیت میںدیدی جائیں اتنی رقم کی زکوٰة اداء ہوجائے گی البتہ زکوٰة کی رقم سے ملازمین کی تنخواہیں اداء کرنادفتری اخراجات کرنا جائز نہیں ہے اس قدرزکوٰة اداء نہیں ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200122

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں