اگر کوئی ملازم دفتر کے مقررہ اوقات (مثلا صبح ساڑھے نوبجے سے شام ساڑھےچھ بجے تک )کےدوران اپنے ذاتی کام انجام دیتا ہے اور بغیر اجازت ایسا کرتا ہے، جس کے نتیجے میں اس کے دفتری اوقات مکمل نهیں ہوتے(سواۓمقررہ لنچ اور نماز کے وقفےکے، جو دوپہر ایک بجےسے ڈھائی بجے تک ہے)، تو اس کا شرعی حکم کیا ہوگا؟اسی طرح اگر کوئی ملازم مقررہ وقفے کے بعد بھی وقت پر دفتر نہیں آتا بلکه تین بجے،ساڑھے تین بجے یا چاربجے اکثر دفتر پہنچتا ہے،تو کیا یہ خیانت میں شمار ہوگا؟اس کے علاوہ اگر کوئی ملازم دفتر آنے کے بجائے سیدھا گھر سے فیلڈ پر جانے کا مجاز ہے اور اسے صبح ساڑھے نو بجےفیلڈ میں موجود ہونا چاہیے، مگر وہ وقت پر نہیں پہنچتا اور مسلسل تاخیر کرتا ہے، تو اس کا کیا حکم ہوگا؟
دفتر میں کام کرنے والے ملازمت کے آغاز میں باہم طے پانے والے معاہدے کے شرعاً پابند ہیں ،دفتری اوقات ملازم کے پاس امانت ہوتے ہیں اور ان اوقات کی پابندی کے ساتھ ساتھ اس دوران ملازم کو اپنا کوئی ذاتی کام کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے، جتنا وقت اُس موقع پر طے ہوتاہےوہ ادارے کی امانت ہے اور اتنا وقت کمپنی کو دینا اور اس میں ادارے کا ہی کام کرنا شرعاً لازم ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مقررہ اوقات میں بلااجازت ذاتی کام کرنا،یا مقرہ وقت پر بلاعذرنہ آنا،اسی طرح بلاعذرفیلڈ میں طے شدہ وقت پر نہ پہچنایہ سب ادارے کے ساتھ خیانت ہے اور اس وقت کی تنخواہ لیناشرعاًجائز نہیں۔
الدر مع الرد میں ہے:
"وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل.(قوله وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى. وفي غريب الرواية قال أبو علي الدقاق: لا يمنع في المصر من إتيان الجمعة، ويسقط من الأجير بقدر اشتغاله إن كان بعيدا، وإن قريبا لم يحط شيء فإن كان بعيدا واشتغل قدر ربع النهار يحط عنه ربع الأجرة. (قوله ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."
(كتاب الإجارة،باب ضمان الأجير،مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة،ج:6،ص:70،ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609100969
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن