بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے جسم کا کچھ حصہ تدفین کے بعد ملا تو اسے دفن کرنا ضروری ہے


سوال

اگر شہید کے جسم کا کوئی حصہ شہید کو دفن کرنے کے بعد ملا تو اس جسم کے حصے کو اسی قبر میں دفن کیا جائے یا دوسری قبر میں یا قبر میں دفن کرنا ضروری نہیں ہے؟

جواب

اگر شہید یا کسی بھی میت کے جسم کا کچھ حصہ اس کی تدفین کے بعد ملا تو اس حصہ کوبھی دفن کرنا لازم ہے، البتہ جب اکثر حصہ تجہیز و تکفین اور نمازِ جنازہ کے بعد دفن کردیا گیا تو اب بعد میں ملنے والے کچھ حصے پر علیحدہ سے نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی، اور اس حصے کی تدفین کے لیے مذکورہ میت کی قبر کشائی نہیں کی جائے گی، بلکہ اس حصہ کو  یوں ہی کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کرقبرستان میں کسی بھی جگہ دفن کر دیا جائے گا۔

المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة - (5 / 405):

"وإذا كفن الميت في ثوب غصب، ودفن وأهيل التراب عليه، فإن كان للميت تركة أخذ القيمة من تركته، ولاينبش الميت، وكذا إذا لم يكن للميت تركة، ولكن تبرع إنسان بأداء القيمة أخذ المالك القيمة من المتبرع، ولا ينبش القبر، وإن لم يكن شيء من ذلك فصاحب الكفن بالخيار؛ إن شاء تركه لآخرته، وهو له فضل، وإن شاء نبش القبر، وأخذ الكفن، قيل: هذا إذا كفن من غير خياطة، فإن نبش القبر، وأخذ الكفن، فوجده قد انتقص، فله أن يضمن الذين كفنوه ودفنوه؛ لأنهم صاروا غاصبين."

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ـ مشكول - (5 / 381):

"وأفاد كلام المصنف أنه لو وضع لغير القبلة أو على شقه الأيسر أو جعل رأسه في موضع رجليه أو دفن بلا غسل وأهيل عليه التراب فإنه لاينبش قال في البدائع ؛ لأن النبش حرام حقًّا لله تعالى ، وفي فتح القدير واتفقت كلمة المشايخ في امرأة دفن ابنها ، وهي غائبة في غير بلدها فلم تصبر وأرادت نقله أنه لا يسعها ذلك فتجويز شواذ بعض المتأخرين لا يلتفت إليه ا هـ ."

الفتاوى الهندية - (4 / 409):

"ولو وجد أكثر البدن أو نصفه مع الرأس يغسل ويكفن ويصلى عليه ، كذا في المضمرات ، وإذا صلي على الأكثر لم يصل على الباقي إذا وجد ، كذا في الإيضاح .وإن وجد نصفه من غير الرأس أو وجد نصفه مشقوقا طولا فإنه لا يغسل ولا يصلى عليه ويلف في خرقة ويدفن فيها ، كذا في المضمرات ."

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144110200121

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں