بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دفینے (زمین میں گڑا ہوا خزانہ) کے خمس کا مصرف


سوال

دفینہ کے نکلے ہوئے سامان میں سے جو خمس ہے، اس کا کیا مصرف ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ دفینہ ( یعنی گڑا خزانہ)  کا حکم یہ ہے کہ اگر دفینہ دارالاسلام میں کسی ایسی جگہ مل جائے جو جگہ کسی کی ملکیت میں نہیں ہے تو اگر مدفون چیز پر اسلامی سلطنت کی کوئی علامت موجود ہے مثلًا:  کلمہ یا اللہ   و رسول  کا نام یا اسلامی نام وغیرہ تو یہ دفینہ لقطہ کے حکم میں ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ جس شخص کو یہ ملے، حتی الوسع وہ تشہیر کرے، اگر تشہیر کے باوجود مالک کا پتا نہ لگے تو اس کو محفوظ  رکھے؛  تاکہ مالک کے آجانے  کی صورت میں مشکل پیش نہ آئے۔ اور  (حتی الوسع تشہیر کے ذرائع استعمال کرنے کے باوجود اگر مالک ملنے سے مایوسی ہوجائے تو) یہ صورت بھی جائز ہے کہ مالک ہی کی طرف سے مذکورہ  دفینہ کسی  فقیر کو صدقہ کردے، اور اگر خود زکاۃ کا مستحق ہے تو خود بھی استعمال کرسکتاہے۔ البتہ صدقہ کرنے یاخود استعمال کرنے کے بعد مالک آجاتاہے تواسے دفینے کے بقدر رقم کے مطالبے کا  اختیار حاصل ہوگا۔ 

اور اگر مدفون چیزوں پر  دورِ جاہلیت کی کوئی علامت پائی جائے، مثلًا بت کا نقش وغیرہ تو اس صورت میں دفینہ کا خمس (پانچواں حصہ)  زکاۃ میں دے دیا جائے  اور باقی چار حصے پانے والے کی ملکیت ہوگی،اور مملوکہ زمین میں اگر یہ خزانہ دریافت ہو تو زمین کا مالک ہی خمس کے بعد مابقیہ کا مالک ہوگا۔ نیز مذکورہ دفینہ کے خمس کا  مصرف وہی لوگ ہیں جو  زکوۃ کے مصرف ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وما عليه سمة الإسلام من الكنوز) نقدا أو غيره (فلقطة) سيجيء حكمها (وما عليه سمة الكفر خمس وباقيه للمالك.

(قوله: سمة الإسلام) بالكسر وهي في الأصل أثر الكي والمراد بها العلامة وذلك ككتابة كلمة الشهادة أو نقش آخر معروف للمسلمين.

(قوله: نقدا أو غيره) أي من السلاح والآلات وأثاث المنازل والفصوص والقماش بحر.

(قوله: فلقطة) ؛ لأن مال المسلمين لا يغنم بدائع (قوله: سيجيء حكمها) وهو أنه ينادي عليها في أبواب المساجد والأسواق إلى أن يظن عدم الطلب ثم يصرفها إلى نفسه إن فقيرًا وإلا فإلى فقير آخر بشرط الضمان ح.

(قوله: سمة الكفر) كنقش صنم أو اسم ملك من ملوكهم المعروفين بحر (قوله: خمس) أي سواء كان في أرضه أو أرض غيره أو أرض مباحة كفاية قال قاضي خان وهذا بلا خلاف؛ لأن الكنز ليس من أجزاء الدار فأمكن إيجاب الخمس فيه بخلاف المعدن." 

(كتاب الزكوة، ج:2، ص:322، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم 

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

زمین سے کھدائی کے دوران پرانا دفینہ (خزانہ) نکلنے کی صورت میں اس کی ملکیت اور خمس کا حکم


فتوی نمبر : 144207201013

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں