بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زمین سے کھدائی کے دوران پرانا دفینہ (خزانہ) نکلنے کی صورت میں اس کی ملکیت اور خمس کا حکم


سوال

اگر کوئی مزدور یا ٹھیکیدار کسی کی مملوکہ زمین میں کھدائی کے دوران دو سو سال پرانا خرانہ (سونے کے سکوں کی صورت میں) پائے، تو وہ سونا زمین کے مالک کا سمجھا جائے گا یا پانے والے کی ملکیت ہوگا؟

نیز اس میں خمس کے کیا احکام ہوں گے؟ جامعہ کی دار الافتاء کی اس بارے میں کیا تحقیق ہے اور جامعہ کے اکابر مفتیانِ کرام کی رائے اس بارے میں کیا ہے؟ دار الافتاء کے اکابر مفتیان رحمہم اللہ کے فتاویٰ کا حوالہ بھی شامل کرلیا جائے تو نوازش ہوگی!

جواب

واضح رہے کہ دارالاسلام میں کسی زمین سے نکلنے والے دفینہ کی چند قسمیں ہیں:

(1)     اسلامی کنوز:      یعنی وہ دفینہ جس کے بارے میں  غالب گمان ہو کہ  یہ کسی مسلمان کی طرف منسوب ہے،  اس کی صورت یہ ہے کہ  اس میں کوئی اسلامی نقش ہو، مثلًا کلمہ توحید، یا نبی کریم ﷺ پر درود یا کسی مسلمان بادشاہ کا نام  یا کوئی اور نشانی جس سے  دفینہ  کسی مسلمان کے ہونے کا علم ہو۔

 (2)   کنوزِ  جاہلیت یا کنوزِ  کفار:        یعنی وہ دفینہ   جس کے بارے میں غالب گمان ہو کہ  یہ  ِ اسلام  کے ظہور سے پہلے کا دفینہ ہے، یا یہود ونصاری  ، یا  دیگر کفار کا ہے،  اس  کی صورت یہ ہے کہ  اس  پر ان کی علامات یا نقوش ہوں  مثلًا ان کے کافر  بادشاہوں کے نام، ان کی تصویریں، صلیب کے نشان، بتوں کی تصاویر، یا مندر  وغیرہ کے نقشے ہوں یا کوئی بھی ایسی چیز ہو جس سے دفینہ  کسی کافر کے ہونے کا علم ہو۔

(3)   کنوزِ مشتبہ:          یعنی وہ دفینہ جس کی اصل مشتبہ ہو، جن کی حقیقت کا علم نہ ہو کہ یہ کفار کا ہے یا مسلمانوں کا، مثلا ان پر کوئی علامت  اور نقشہ نہ ہو۔

 نیز دارالاسلام میں  ملنے والے  دفینے کی زمین کے اعتبار سے بھی دو قسمیں ہیں:

(1)   مملوکہ زمین میں ہو:             یعنی کسی ایسی زمین یا گھر میں پایا جائے  جس زمین کو  مالک نے خود خریدا  ہو ، یا میراث یا ہبہ وغیرہ کے ذریعہ اسے حاصل ہوئی ہو۔

(2)   غیر مملوکہ زمین میں  ہو:        یعنی کسی ایسی زمین میں پایا جائے جو بنجر اور ویران ہو، جس کا مالک معلوم نہ ہو، یا اسلامی حکومت کی غیر مملوکہ زمین میں پایا جائے۔

  ان صورتوں کا اجمالی حکم یہ ہے کہ   وہ دفینہ جس پر اسلامی علامات ہوں اس کا حکم ”لقطہ“ کا ہے، خواہ وہ مملوکہ زمین  سے ملا ہو یا غیر مملوکہ زمین میں سے ،  اور وہ دفینہ  جس پر  کفر کی علامات ہوں ، اس کا حکم غنیمت کا ہے،(جس کی تفصیل آگے آرہی ہے)  اور مشتبہ دفینہ میں اختلاف ہے، راجح یہی ہے کہ اس کا حکم بھی کفار کے دفینوں  یعنی  غنیمت کا ہے۔

اس اجمال کی تفصیل  اور ہر  ایک کا حکم ترتیب وار درج ذیل ہے:

(1)   غیر مملوکہ زمین میں سے دفینہ برآمد ہو اور اس پر کفر کی علامات ہوں،  یا کوئی مشتبہ دفینہ ہو یعنی اس پر کوئی علامت نہ ہو تو   اس کا حکم مال ِ  غنیمت کا ہے،  اوراس میں  سے پانچواں حصہ بیت المال  میں جمع کرنا لازم ہوگا ، اور بیت المال نہ ہونے کی صورت میں دینی مدارس کے غریب طلبہ  کو دیا جائے گا، اور یہ واجد(دفینہ برآمد کرنے والا) خود بھی تقسیم کرسکتا ہے، اور باقی چار حصے   دفینہ بر آمد کرنے والے کو ملیں گے اور وہ اسے اپنے ذاتی استعمال میں لاسکے گا۔

(2)   غیر مملوکہ زمین سے دفینہ بر آمد ہو اور اس پر  اسلامی علامات ہوں،  یا اس کا غالب گمان ہو کہ یہ مسلمانوں کا دفینہ ہے، تو اس کا حکم ” لقطہ “  کا ہے، کیوں  کہ یہ مسلمانوں کا مملوکہ  مال ہے، غنیمت کا مال  نہیں بن سکتا،  اور لقطہ کا حکم یہ ہے کہ  اس کی تشہیر کرائے، جب یہ یقین ہوجائے کہ اب اس کے مالک نے اسے تلاش کرنا  چھوڑ دیا ہوگا، تو   تشہیر اور انتظار مکمل ہوجانے کے بعد مالک کی طرف سے  فقر اء ومساکین کو صدقہ کردے، اور اگر لقطہ اٹھانے والا  خود  فقیر ہے تو وہ  خود بھی  استعمال کرسکتا، تاہم اگر مالک بعد میں آجائے اور صدقہ کرنے کو قبول نہ کرے ، بلکہ اپنے مال کا   مطالبہ کرے تو وہ چیز اسے واپس کرنا ضروری ہوگا۔

 (3)   مملوکہ زمین سے دفینہ بر آمد ہو اور  اور اس پر کفر کی علامات ہوں،  یا  مشتبہ دفینہ ہو تو  اس میں خمس (پانچواں حصہ) بیت المال میں جمع کرنا لازم ہوگا، اور بیت المال نہ ہونے کی صورت میں دینی مدارس کے غریب طلبہ  کو دیا جائے گا، اور یہ واجد  (دفینہ برآمد کرنے والا)   خود بھی تقسیم کرسکتا ہے، اور باقی چار حصے  امام ابو حنیفہ  اورامام محمد رحمہما اللہ  کے نزدیک  اس زمین کے پہلے مالک  جس کو اسلامی حکومت کے  بادشاہ نے  یہ زمین تقسیم میں دی تھی اس کو  ملیں گے، اور اگر وہ انتقال کرگیا ہو تو  اس کے ورثاء کو  ملیں گے، اور اگر وہ مالک اور اس  کے ورثاء دونوں معلوم نہ ہوں  تو باقی چار حصے   اس زمین کے دارالاسلام میں  پہلے مالک کو ملیں گے  یعنی  اس بات کی تحقیق کی جائے گی کہ  موجودہ مالک سے پہلے  کون مالک تھا اور پھر  اس سے پہلے کون تھا، جہاں  پہنچ کر  ہماری تحقیق کا دائرہ  ختم ہوجائے اور اس کے بعد پہلے مالک کا علم  نہ ہوسکے ، اس کو ملیں گے، اور اگر یہ بھی معلوم نہ ہوں تو   بیت المال میں جمع کیا جائے گا، اور اگر بیت المال نہ ہو تو دینی مدارس میں جمع کیا  جائے گا۔  اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک باقی چار حصے اس دفینہ کو بر آمد کرنے والے کے ہوں گے، اور موجود ہ زمانہ میں امام ابویوسف کے قول پر فتویٰ ہے۔

(4)   مملوکہ زمین سے دفینہ بر آمد ہو اور اس پر  اسلامی علامات ہوں،  یا اس کا غالب گمان ہو  کہ یہ مسلمانوں کا  دفینہ ہے، تو اس کا حکم ” لقطہ “  کا ہے، جس کی تفصیل پیچھے گزرچکی ہے۔

 نیز مملوکہ زمین میں اگر مزدور   زمین کے مالک کے حکم سے  محنت مزدوری کرکے زمین سے جو دفینہ برآمد کریں گے، وہ زمین کے مالک کا ہی ہوگا، کیوں کہ یہ مزدور اسی کے لیے کام کررہے ہیں، اور ان کو اس عمل کی مزدوری مل رہی ہے  اور شرعا ”واجد“ یعنی دفینہ بر آمد کرنے والا یہی مستاجر ( کرایہ پر لینے والا) / زمین کا مالک  کہلائے گا، اور مزدوروں کو اپنی طے شدہ اجرت ملے گی، لیکن اگر وقت  یا اجرت متعین نہ ہو یا کسی بھی وجہ سے  اجارہ فاسد ہو تو  پھر دفینہ   جس کو ملے گا وہی اس کا مالک  ہوگا، اگر مالک کو ملا تو مالک  اور اگر مزدور کو ملا تو مزدور اس کے مالک ہوں گے۔

         مذکورہ تفصیل کے بعد آپ سوال کےجواب   درج ذیل ہیں :

  کسی کی مملوکہ زمین میں  مالک کے  مقرر کردہ مزدوروں کے  کام کر نے سے  دفینہ برآمد ہو  تو  مزدور اس دفینہ کے مالک نہیں ہوں گے،  بلکہ وہ دفینہ  مستاجر/زمین کے مالک  کا ہوگا، پھر اس میں وہی تفصیل ہے کہ اگر ”اسلامی کنوز“ ہوں  تو لقطہ کے حکم میں ہوں گے، اور اگر ”کنوز جاہلی یا کنوز کفار یا کنوز مشتبہ “ ہوں ، تو اس کا خمس نکال کر باقی چار حصے زمین کے مالک کی ملکیت ہوں گے۔

 بدائع الصنائع میں ہے:

أما الكنز فلا يخلو إما أن وجد في دار الإسلام، أو دار الحرب، وكل ذلك لا يخلو إما أن يكون في أرض مملوكة، أو في أرض غير مملوكة، ولا يخلو إما أن يكون به علامة الإسلام كالمصحف والدراهم المكتوب عليها لا إله إلا الله محمد رسول الله، أو غير ذلك من علامات الإسلام، أو علامات الجاهلية من الدراهم المنقوش عليها الصنم، أو الصليب ونحو ذلك، أو لا علامة به أصلا فإن وجد في دار الإسلام في أرض غير مملوكة كالجبال والمفاوز وغيرها فإن كان به علامة الإسلام فهو بمنزلة اللقطة يصنع به ما يصنع باللقطة يعرف ذلك في كتاب اللقطة؛ لأنه إذا كان به علامة الإسلام كان مال المسلمين ومال المسلمين لا يغنم إلا أنه مال لا يعرف مالكه فيكون بمنزلة اللقطة، وإن كان به علامة الجاهلية ففيه الخمس وأربعة أخماسه للواجد بلا خلاف كالمعدن على ما بين، وإن لم يكن به علامة الإسلام ولا علامة الجاهلية فقد قيل إن في زماننا يكون حكمه حكم اللقطة أيضا ولا يكون له حكم الغنيمة؛ لأن عهد الإسلام قد طال فالظاهر أنه لا يكون من مال الكفرة بل من مال المسلمين لم يعرف مالكه فيعطى له حكم اللقطة، وقيل حكمه حكم الغنيمة؛ لأن الكنوز غالبا بوضع الكفرة وإن كان به علامة الجاهلية يجب فيه الخمس؛ لما روي أنه «سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الكنز فقال: فيه وفي الركاز الخمس» ، ولأنه في معنى الغنيمة؛ لأنه استولى عليه على طريق القهر وهو على حكم ملك الكفرة فكان غنيمة فيجب فيه الخمس وأربعة أخماسه للواجد؛ لأنه أخذه بقوة نفسه وسواء كان الواجد حرا، أو عبدا مسلما، أو ذميا كبيرا، أو صغيرا؛ لأن ما روينا من الحديث لا يفصل بين واجد وواجد ولأن هذا المال بمنزلة الغنيمة. ۔۔۔  وإن وجد في أرض مملوكة يجب فيه الخمس بلا خلاف لما روينا من الحديث ولأنه مال الكفرة استولى عليه على طريق القهر فيخمس. واختلف في الأربعة الأخماس قال أبو حنيفة ومحمد رحمهما الله: هي لصاحب الخطة إن كان حيا وإن كان ميتا فلورثته إن عرفوا، وإن كان لا يعرف صاحب الخطة ولا ورثته تكون لأقصى مالك للأرض، أو لورثته، وقال أبو يوسف: أربعة أخماسه للواجد.

(بدائع الصنائع  (2/ 65)  کتاب الزکوٰۃ، فصل  حکم المستخرج من الارض، ط: سعید)

المحیط البرہانی میں ہے:

وإن وجده في دار مملوكة له، وفيه علامات الشرك، أو لم يكن فيه، الخمس وأربعة أخماسه للمختط له عند أبي حنيفة، ومحمد، وهو الذي اختطه الإمام حين فتح أهل الإسلام تلك البلدة إن كان فيئا، ولا شيء للواجد، وقال أبو يوسف: هو للواجد؛ لأن هذا مال مباح سبقت إليه يده الحقيقية، فيكون أحق به كما لو وجده في المغارة. بيانه: إن هذا المال كان مباحا، والمباح يملك بإثبات اليد، ويد المختط له، تثبت على هذا المال حكما لا حقيقة، ويد الواجد تثبت عليها حقيقة، فاعتبار الحكم إن كان يقتضي ثبوت الملك للمختط له فاعتبار الحقيقة يقتضي ثبوت الملك للواجد، فيترجح الواجد؛ لأن الحقيقي فوق الحكمي.

(المحيط البرهاني (2/ 366)  کتاب الخراج ، الفصل الثانی فی المتفرقات، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

         فتاوی شامی میں ہے:

 (ولو) وجدت (دفين الجاهلية) أي كنزا (خمس) لكونه غنيمة.

والحاصل: أن الكنز يخمس كيف كان والمعدن إن كان ينطبع (و) لا في (لؤلؤ) هو مطر الربيع (وعنبر) حشيش يطلع في البحر أو خثي دابة (وكذا جميع ما يستخرج من البحر من حلية) ولو ذهبا كان كنزا في قعر البحر لأنه لم يرد عليه القهر فلم يكن غنيمة (وما عليه سمة الإسلام من الكنوز) نقدا أو غيره (فلقطة) سيجيء حكمها (وما عليه سمة الكفر خمس وباقيه للمالك أول الفتح) ولوارثه لو حيا وإلا فلبيت المال على الأوجه وهذا (إن ملكت أرضه وإلا فللواجد)

 (قوله: سمة الإسلام) بالكسر وهي في الأصل أثر الكي والمراد بها العلامة وذلك ككتابة كلمة الشهادة أو نقش آخر معروف للمسلمين (قوله: نقدا أو غيره) أي من السلاح والآلات وأثاث المنازل والفصوص والقماش بحر.

 (قوله: فلقطة) ؛ لأن مال المسلمين لا يغنم بدائع (قوله: سيجيء حكمها) وهو أنه ينادي عليها في أبواب المساجد والأسواق إلى أن يظن عدم الطلب ثم يصرفها إلى نفسه إن فقيرا وإلا فإلى فقير آخر بشرط الضمان ح. (قوله: سمة الكفر) كنقش صنم أو اسم ملك من ملوكهم المعروفين بحر (قوله: خمس) أي سواء كان في أرضه أو أرض غيره أو أرض مباحة كفاية قال قاضي خان وهذا بلا خلاف؛ لأن الكنز ليس من أجزاء الدار فأمكن إيجاب الخمس فيه بخلاف المعدن (قوله أول الفتح) ظرف للمالك أي المختط له وهو من خصه الإمام بتمليك الأرض حين فتح البلد. (قوله: على الأوجه) قال في النهر: فإن لم يعرفوا أي الورثة قال السرخسي: هو لأقصى مالك للأرض أو لورثته وقال أبو اليسر: يوضع في بيت المال قال في الفتح: وهذا أوجقاه للمتأمل اهـ وذلك لما في البحر من أن الكنز مودع في الأرض فلما ملكها الأول ملك ما فيها ولا يخرج ما فيها عن ملكه ببيعها كالسمكة في جوفها درة. (قوله: وهذا إن ملكت أرضه) الإشارة إلى قوله وباقيه للمالك، وهذا قولهما وظاهر الهداية وغيرها ترجيحه لكن في السراج وقال أبو يوسف: والباقي للواجد كما في أرض غير مملوكة وعليه الفتوى. اهـ  قلت: وهو حسن في زماننا لعدم انتظام بيت المال بل قال ط: إن الظاهر أن يقال أي على قولهما إن للواجد صرفه حينئذ إلى نفسه إن كان فقيرا كما قالوا في بنت المعتق إنها تقدم عليه ولو رضاعا ويدل عليه ما في البحر عن المبسوط ومن أصاب ركازا وسعه أن يتصدق بخمسه على المساكين وإذا اطلع الإمام على ذلك أمضى له ما صنع؛ لأن الخمس حق الفقراء وقد أوصله إلى مستحقه وهو في إصابة الركاز غير محتاج إلى الحماية فهو كزكاة الأموال الباطنة اهـ.

(فتاوی شامی (2/ 322۔323) کتاب الزکوٰۃ، باب زکوٰۃ الرکاز، ط: سعید)

وفیہ ایضا:

 (وإن خلا عنها) أي العلامة (أو اشتبه الضرب فهو جاهلي على) ظاهر (المذهب) ذكره الزيلعي لأنه الغالب وقيل كاللقطة

 (قوله وقيل كاللقطة) عبارة الهداية وقيل: يجعل إسلاميا في زماننا لتقادم العهد. اهـ. أي فالظاهر أنه لم يبق شيء من آثار الجاهلية، ويجب البقاء مع الظاهر ما لم يتحقق خلافه والحق منع هذا الظاهر، بل دفينهم إلى اليوم يوجد بديارنا مرة بعد أخرى كذا في فتح القدير أي وإذا علم أن دفينهم باق إلى اليوم انتفى ذلك الظاهر.

(فتاوی شامی (2/ 323) کتاب الزکوٰۃ، باب زکوٰۃ الرکاز، ط: سعید)

 البحر الرائق میں ہے:

وإذا استأجر أجراء للعمل في المعدن فالمصاب للمستأجر؛ لأنهم يعملون له

(البحر الرائق (2/ 252) کتاب الزکوٰۃ، باب الرکاز، ط: دارالکتاب الاسلامی)

 المبسوط للسرخسی میں ہے:

(قال:) وإذا تقبل الرجل من السلطان معدنا، ثم استأجر فيه أجراء واستخرجوا منه مالا قال: يخمس وما بقي فهو للمتقبل؛ لأن عمل أجرائه كعمله بنفسه، ولأن عملهم صار مسلما إليه حكما بدليل وجوب الأجرة لهم عليه۔

(المبسوط للسرخسي (2/ 217) کتاب الزکوٰۃ، باب المعادن وغیرھا، ط: دارالمعرفۃ، بیروت)

(مجمع الانھر، (1/212) باب الرکاز، ط: دار احیاء التراث العربی  )

         فتاوی شامی میں ہے:

ولو عمل رجلان في الركاز فهو للواجد وإن كانا أجيرين فهو للمستأجر

(قوله: فهو للمستأجر) سيذكر المصنف في باب الإجارة الفاسدة استأجره ليصيد له أو يحتطب فإن وقت لذلك وقتا جاز وإلا لا إلا إذا عين الحطب وهو ملكه اهـ وكتب ط هناك على قوله: وإلا لا أن الحطب للعامل.

قلت: ومقتضاه أن الركاز هنا للعامل أيضا إذا لم يؤقتا؛ لأنه إذا فسد الاستئجار بقي مجرد التوكيل وعلمت أن التوكيل في أخذ المباح لا يصحبخلاف ما إذا حصله أحدهما بإعانة الآخر كما مر فإن للمعين أجر مثله؛ لأنه عمل له غير متبرع هذا ما ظهر لي فتأمله

(فتاوی شامی (2/323) کتاب الزکوٰۃ،  باب زکوٰۃ الرکاز، ط: سعید)

فقط واللہ ا علم


فتوی نمبر : 144207200263

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں