بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

درس کے دوران سمجھانے کے لیے بطور مثال طلاق کا جملہ کہنا


سوال

سوال یہ ہے کہ فقہ کی کتابوں میں بطور مثال لکھا جاتا ہے ("أنت طالق" یا مثلًا شرح الجامی توابع کی بحث تاکید میں مذکور ہے "طلقت النساء کلھنّ") متکلم کے صیغہ کے ساتھ، کیا ان الفاظ کوبطور مثال بولنے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے؟ 

جواب

کتاب  سے مسئلہ پڑھنے یا پڑھانےکی صورت میں   جو طلاق کے الفاظ بولے یا لکھے جاتے ہیں وہ بطورِ حکایت (کسی کی گفتگو نقل  کرنے کے طور پر)  ہوتے ہیں، یا بطور مثال کسی کوسمجھانے کے لیے ہوتے ہیں، ان الفاظ سے طلاق دینا مقصود نہیں ہوتا اور شرعاً کسی دوسرے  کے طلاق کے الفاظ  نقل کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"لو كرر مسائل الطلاق بحضرة زوجته ويقول: أنت طالق ولاينوي لاتطلق، وفي متعلم يكتب ناقلًا من كتاب رجل قال: ثم يقف و يكتب: امرأتي طالق و كلما كتب قرن الكتابة باللفظ بقصد الحكاية لايقع عليه."

(کتاب الطلاق، باب ألفاظ الطلاق،ج: 3، صفحه: 278، ط:  دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201262

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں