سوال یہ ہے کہ فقہ کی کتابوں میں بطور مثال لکھا جاتا ہے ("أنت طالق" یا مثلًا شرح الجامی توابع کی بحث تاکید میں مذکور ہے "طلقت النساء کلھنّ") متکلم کے صیغہ کے ساتھ، کیا ان الفاظ کوبطور مثال بولنے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے؟
کتاب سے مسئلہ پڑھنے یا پڑھانےکی صورت میں جو طلاق کے الفاظ بولے یا لکھے جاتے ہیں وہ بطورِ حکایت (کسی کی گفتگو نقل کرنے کے طور پر) ہوتے ہیں، یا بطور مثال کسی کوسمجھانے کے لیے ہوتے ہیں، ان الفاظ سے طلاق دینا مقصود نہیں ہوتا اور شرعاً کسی دوسرے کے طلاق کے الفاظ نقل کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:
"لو كرر مسائل الطلاق بحضرة زوجته ويقول: أنت طالق ولاينوي لاتطلق، وفي متعلم يكتب ناقلًا من كتاب رجل قال: ثم يقف و يكتب: امرأتي طالق و كلما كتب قرن الكتابة باللفظ بقصد الحكاية لايقع عليه."
(کتاب الطلاق، باب ألفاظ الطلاق،ج: 3، صفحه: 278، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144205201262
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن