بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دادی کے صرف زبانی اور تحریری ہبہ کرنے سے والد گھر کے مالک نہیں ہوئے


سوال

 میرا جو گھر ہے اس کی زمین صرف میری دادی جان کے نام پر تھی اس کے علاوہ مکان کی تعمیر و ترقی پر جو بھی سرمایہ آیا وہ ہم نے خود کیا ہے ہم 30 سال سے ہم اس مکان پر رہ رہے ہیں دادی جان میری میرے والد صاحب جو کہ سب سے چھوٹے بیٹے تھے ان کے ساتھ رہتی تھی تھی میرے والد صاحب کی کوئی سرکاری ملازمت نہیں تھی اور کاروباری طور پر بھی وہ سیٹ نہیں تھے وہ کافی غریب تھے دوسرے بھائیوں کی نسبت ۔دوسرے بھائی مالی لحاظ سے بہتر تھے۔  میری دادی جان کا یہ فیصلہ تھا کہ یہ گھر میں اپنے بیٹے کو ہبہ کرتی ہوں،  یہ میرے چھوٹے بیٹے کا ہے۔  صرف وجہ یہ تھی میرے والد صاحب کے حالات اچھے نہیں تھے اور  دوسرا خدمت گار بھی تھے۔  دادی جان کا یہ فیصلہ کسی کو نقصان پہنچانے کی نیت سے نہیں تھا ۔ دادی جان نے ایک سٹام پیپر پر بھی لکھ کے دے دیا تھا۔  آج تک ہم اسی گھر میں رہ رہے ہیں ۔

تمام تایا جان بھی فوت ہو چکے ہیں۔  ان کے آگے اولاد بھی ہے،  آج تک کسی نے بھی اپنے حصے کا مطالبہ نہیں کیا کیوں کہ تمام اخراجات ہم نے ہی کیے اور قبضہ بھی شروع سے ہمارا ہے۔  اس کے علاوہ تمام خاندان والے بھی اس بات کے گواہ ہیں۔  جس وقت یہ سب کچھ ہوا ،  اس وقت رجسٹری ہمارے پاس موجود نہیں تھی اگر رجسٹری ہمارے پاس ہوتی تو وہ والد صاحب کے نام کروا دیتے۔  ہم نے بینک سے لون لیا تھا،  ہماری رجسٹری بینک میں چلی گئی،  ابھی اسی دوران دادی جان کی وفات ہوگئی ۔ اب پندرہ سال کے بعد ہم نے جب بینک کا لون  خود ادا کیا تو رجسٹری ہمارے پاس آگئی۔  رجسٹری اس ٹائم دادی جان کے نام پر تھی،  وہ رجسٹری بذریعہ انتقال ہم نے اپنے نام پر کروا دی ۔جس ٹائم رجسٹری ہمارے پاس آئی بذریعہ انتقال اپنے نام کروائی،  اس ٹائم میرے والد صاحب اور ان کے  بھائیوں میں سے کوئی بھی زندہ نہیں تھا۔  جیسا کہ آپ کو بتایا کہ صرف زمین دادی جان کے نام پر تھی اور شروع سے ہی اس کی تعمیر و ترقی پر ہم نے پیسے خرچ کیے اور قبضہ بھی ہمارا ہے۔  مجھے یہ بتائیں کے یہ ہبہ یا گفٹ شریعت کے مطابق پورا ہو چکا ہے؟

بعض علماء کے مطابق ایسا کرنا جائز نہیں تھا پر دادی جان نے اگر کردیا ہے اور قبضہ بھی آپ کو دیا ہے تو یہ ہبہ مکمل ہوچکا ہے۔  بعض علماء کے مطابق شرعی عذر اگر ہو تو ایسا کر سکتے ہیں۔  دلائل کے ساتھ رہنمائی فرمائیں ۔

اس مسئلے پر مسلک دیوبند اور اہل سنت کا اتفاق ہے۔  میں نے دو سے تین فتوے بھی حاصل کر لئے ہیں جن کے مطابق یہ میرے حق میں مکمل تام ہبہ ہے ۔چند مفتیان کرام کی رائے جن اہم وجوہات اور نکات کی وجہ سے وہ میرے حق میں بہتر ہے مفتیان کرام کے مطابق :

1 یہ زمین دادی جان کو وراثت میں نہیں ملی، بلکہ یہ ان کی اپنی زمین تھی جو انہوں نے خود خریدی تھی۔  یہ زمین انہوں نے اپنے والدین کی وراثت میں سے جو زمین ملی تھی وہ بیچ کر لی تھی۔

2 کچھ کے مطابق دادا جان زندہ نہیں تھے تو ہبہ کر سکتی ہیں۔

3 کچھ کے مطابق زمین صرف دادی جان کے نام پر تھی باقی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالا۔  قبضہ بھی آپ کا ہے اور آخر میں بینک کا لون بھی آپ نے خود ادا کیا اور رجسٹری لی یہ زمین آپ کی ہے۔

4 کچھ کے مطابق والدہ دے سکتے ہیں والد نہیں دے سکتے،  والد کے زمین کے وارث ہوتے ہیں۔

5 کچھ کے مطابق دادی جان کی نیت کسی کو نقصان دینا نہیں تھی اور حقیقت میں بھی ان کی نیت یہی تھی اور  میرے والد صاحب غریب تھا اور بہت زیادہ خدمت گزار بھی۔

6 کچھ کے مطابق دادی جان نے اسٹامپ پیپر پر لکھ کر دے دیا جس پر دو گواہ بھی موجود تھے اور پوری فیملی کو بھی اس حوالے سے پتا ہے۔

7 کچھ کے مطابق مرض الموت میں یہ سب  کچھ نہیں کیا گیا اس سے پہلے کیا گیا۔

8 اب میں نے مسلک دیوبند اور مسلک اہل سنت سے فتوے بھی حاصل کیے ہیں جن کے مطابق یہ ہبہ اور گفٹ مکمل ہے۔  اب میں اس مکان کو سیل کرنا چاہ رہا ہوں۔ میری رہنمائی فرمائیں۔

احادیث میں عمری اور رقبی کا بھی ذکر ہے اور اس عمری کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جائز قرار دیا ہے،  نہ کرنے کا بھی حکم ہے اور اگر کر دی تو وہ اسی کی ہو جائے گی۔  ایک صحابی کے واقعہ میں اپنے بیٹے کو غلام گفٹ کیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ باقیوں کو بھی دو ورنہ اس سے بھی واپس لے لو ۔کیا غلام جو کہ الگ چیز ہے یہ حدیث مبارکہ جائیداد کے حوالے سے ہے کیا؟ اس کے علاوہ بیٹوں میں انصاف کا بھی ضرور حکم دیا گیا ہے اور مفتیان کرام سے میں نے رہنمائی لی ہے سب نے مجھے اوپر جو بیان کیا ہے سب کے مطابق یہ ہبہ اور گفٹ مکمل ہے۔  دو دارالافتاء سے فتوے بھی میں نے حاصل کر لیے ہیں جن کے مطابق یہ ہبہ  اور گفٹ مکمل ہے۔  عمری کے متعلق بہت اہم حدیث جس سے ہبہ کے متعلق تمام خدشات دور ہو جاتے ہیں،  صحیح مسلم 4198 ۔ایک عورت نے ایک باغ اپنے بیٹے کو بطور عمری دیا وہ عورت بھی فوت ہو گئی اور وہ بیٹا بھی جس کو عمر بھر کے لئے باغ دیا تھا بعد میں عورت کے بیٹوں نے بھائی کے بچوں سے باغ میں اپنا حصہ مانگا،  فیصلے کا اختیار حضرت جابر رضی اللہ کو آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات کے مطابق آپ نے گواہی دی اور فیصلہ عورت کے اس بیٹے کے حق میں کیا جسے عمر بھر کے  لیے باغ دیا گیا تھا،  وہ باغ آج تک عمری کرنے والے کے بیٹوں کے پاس ہے ۔

جواب

واضح ہو کہ جو مکان یا جگہ قابلِ تقسیم ہو، اس کا ہبہ مکمل ہونے کے لیے شرط ہے کہ ہبہ کرنے والا اپنا قبضہ اور تصرف اس سے ہٹا کر موہوب لہ (جس کو ہبہ کیا جا رہا ہے) کے مکمل قبضہ اور تصرف میں دے دے لہذا صورت مسئولہ میں دادی کا زبانی کہنا کہ گھر آپ کے والد کا ہے، یہ ہبہ مکمل ہونے کے لیے کافی نہیں تھا، بلکہ گھر سے اپنا قبضہ اور تصرف ہٹا کر مکمل والد کے قبضے اورتصرف میں دینا شرط تھا۔ اسی طرح اسٹامپ پیپر پر لکھ کر ہبہ کرنا بھی گھر کے ہبہ کے لیے شرعاً کافی نہیں تھا۔ باقی سائل نے جو سوال میں ’عمری‘ کا ذکر کیا ہے تو جاننا چاہیے کہ ’عمری‘ کے معاملے کا شرعاً معتبر ہونے کے لیے ہبہ کی شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، جو کہ یہاں نہیں پائی جا رہی۔ 

جو خرچہ گھر پر سائل  کے والد نے کیا، اگر وہ قرض یا شراکت داری کی صراحت کے بغیر تھا تو وہ والدہ کی خدمت کے طور پر تھا جس کا پورا ثواب سائل  کے والد کو ملے گا، تاہم اس خرچے کی وجہ سے سائل  کے والد کا گھر میں حصہ ثابت نہیں ہوسکتا۔

لہذامذکورہ گھر میں سائل  کی دادی کے تمام زندہ ورثاء کا اپنے شرعی حصے کے بقدر حق ہے۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري"  میں ہے:

" عن جابر يرفعه إلى النبي، صلى الله عليه وسلم، قال: (أمسكوا عليكم أموالكم ولا تفسدوها، فإنه من أعمر عمرى فهي للذي أعمرها حيا أو ميتا ولعقبه) . وعن أبي الزبير أيضا عنه، قال: أعمرت امرأة بالمدينة حائطا لها ابنا لها، ثم توفي وتوفيت بعده، وترك ولدا بعده، وله إخوة بنون للمعمرة، فقال ولد المعمرة: رجع الحائط إلينا، فقال بنو المعمر: بل كان لأبينا حياته وموته، فاختصموا إلى طارق مولى عثمان فدعا جابرا فشهد على رسول الله، صلى الله عليه وسلم بالعمرى لصاحبها فقضى بذلك طارق، ثم كتب إلى عبد الملك فأخبره بذلك، وأخبره بشهادة جابر، فقال عبد الملك: صدق جابر، فأمضى ذلك طارق بأن ذلك الحائط لبني المعمر حتى اليوم. وأخرج مسلم أيضا من حديث عطاء عن جابر عن النبي، صلى الله عليه وسلم قال: (العمرى جائزة) . وأخرج أيضا عن عطاء عنه عن النبي، صلى الله عليه وسلم أنه قال: (المرى ميراث لأهلها) وقد مر الكلام فيه مفصلا في أول الباب، وبهذه الأحاديث احتج أبو حنيفة والثوري والشافعي والحسن بن صالح وأبو عبيد، على: أن العمرى له يملكها ملكا تاما يتصرف فيها تصرف الملاك، واشترطوا فيها القبض على أصولهم في الهبات. "

(كتاب الهبة، باب ما قيل في العمرى والرقبى، ج13، ص180، دار إحياء التراث العربي)

المبسوط للسرخسي  میں ہے:

" ثم إن الحديث دليل أن الهبة لا تتم إلا بالقبض؛ لأنه اعتبر القبض للمنع عن الرجوع، وهو دليل لنا أن الوالد إذا وهب لولده هبة ليس له أن يرجع فيها كالولد إذا وهب لوالده، وهذا لأن المنع من الرجوع لحصول المقصود - وهو صلة الرحم - أو لما في الرجوع والخصومة فيه من قطيعة الرحم، والولاد في ذلك أقوى من القرابة المتأبدة بالمحرمية، وفيه دليل على أن: من وهب لأجنبي هبة فله أن يرجع فيها - ما لم يعوض منها - لقوله - صلى الله عليه وسلم -: ما لم يثب، والمراد بالثواب: العوض فعمر - رضي الله عنه - إمامنا في المسألتين يحتج بقوله - رضي الله عنه - على الخصم، وقد قال - عليه الصلاة والسلام -: «أينما دار الحق فعمر معه، وإن ملكا ينطق على لسان عمر». (وعن) عائشة - رضي الله عنها - قالت: نحلني أبو بكر - رضي الله عنه - جذاذ عشرين وسقا من ماله بالعالية، فلما حضره الموت حمد الله تعالى وأثنى عليه ثم قال: يا بنية إن أحب الناس إلي غنى أنت، وأعزهم علي فقرا أنت، وإني كنت نحلتك جذاذ عشرين وسقا من مالي بالعالية، وإنك لم تكوني قبضتيه، ولا حزتيه، وإنما هو مال الورثة، وإنما هما أخواك، وأختاك قالت: فقلت: فإنما هي أم عبد الله - يعني أسماء - قال: إنه ألقي في نفسي أن في بطن بنت خارجة جارية. ثم ذكر عن الشعبي عن عائشة - رضي الله عنها - أن أبا بكر - رضي الله عنه - نحلها أرضا له، وفي هذا دليل أن الهبة لا تتم إلا بالقبض وأنه يستوي في ذلك الأجنبي، والولد إذا كانا بالغين، وفيه دليل على أن الهبة لا تتم إلا بالقسمة - فيما يحتمل القسمة "

(كتاب الهبة، ج12، ص49، دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408100251

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں