بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

داڑھی کی مقدار کیا ہے؟ گردن کے بال صاف کرنے کا حکم


سوال

 جو داڑھی کے بال ہیں اس کو کتنی حد تک رکھنا چاہیے اور کتنے حد تک کاٹنا چاہیے؟  اسی طرح  جو بال  درمیان سے چھوٹے  اور سائیڈ سے  بڑے ہیں، تو  کیا اس کی ترتیب سے سیٹ کر سکتے ہیں؟

نیز گردن کے بال کہاں تک کاٹ سکتے ہیں؟

جواب

ایک مشت  داڑھی  رکھنا  شرعًا واجب ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ تمام اطراف کے بال ایک  مشت ہوں، یعنی  ہر بال  کی  جڑ  سے اس کی لمبائی ایک مشت بنتی ہو، پس کانوں کے پاس جہاں سے جبڑے کی ہڈی شروع ہوتی ہے ، وہیں سے داڑھی کی ابتدا ہےاور  پورا جبڑا  داڑھی کی حد  میں داخل ہے، جبکہ بالوں کی لمبائی کے لحاظ سے داڑھی کی مقدار ایک مشت ہے،  البتہ کھال اور تھوڑی ایک مشت مقدار میں داخل نہیں،  بالوں کی پیمائش اس طور پر کی جائے گی  کہ ہر طرف کے بال کی جڑ سے ایک مٹھی یعنی عرضاً چار انگل داڑھی  باقی رہے، اس سے زائد بال کاٹے جا سکتے ہیں ۔

گردن کے بال صاف کرنا جائز ہے،  گردن کے بال کاٹنا شرعا ممنوع  نہیں۔

رد المحتار علي الدر المختارمیں ہے:

"(قوله: جميع اللحية) بكسر اللام وفتحها نهر، وظاهر كلامهم أن المراد بها الشعر النابت على الخدين من عذار وعارض والذقن.

وفي شرح الإرشاد: اللحية الشعر النابت بمجتمع الخدين والعارض ما بينهما وبين العذار وهو القدر المحاذي للأذن، يتصل من الأعلى بالصدغ ومن الأسفل بالعارض بحر."

(كتاب الطهارة، ١ / ١٠٠، ط: دار الفكر)

شرح مسند أبي حنيفة لعلي القاريمیں ہے:

"المستحب في اللحية، قدر القبضةوبه (عن الهيثم، عن رجل، أن أبا قحافة) بضم قاف، وخفة مهملة، ثم فاء، فهاء، وهو عثمان بن عامر، والد الصديق الأكبر القرشي التيمي الملكي، أسلم يوم الفتح، وعاش إلى خلافة عمر، ومات سنة أربع عشرة، وله تسع وتسعون سنة، روى عنه الصديق وأسماء بنت أبي بكر (أتى النبي صلى الله عليه وسلم ولحيته قد انتشرت) أي باعتبار كثرة شعرها (قال) أي الراوي (فقال) يعني النبي صلى الله عليه وسلم (لو أخذتم) أي لو أخذ بعضكم أيها الصحابة، لكان حسناً، و لو للتمني، و لايحتاج إلى جواب (وأشار) أي النبي صلى الله عليه وسلم (بيده إلى نواحي لحيته) فالإشارة قامت مقام العبارة.

فالتقدير: لو أخذتم نواحي لحيته طولاً وعرضاً، وتركتم قدر المستحب، و هو مقدار القبضة، و هي الحد المتوسط بين الطرفين المذمومين من إرسالهما مطلقاً، و من حلقها وقصها على وجه استئصالها، و في حديث الترمذي، عن ابن عمر، أنه عليه الصلاة والسلام كان يأخذ من لحيته، من عرضها و طولها."

( ذكر إسناده عن الهيثم بن حبيب الصرفي، ١ / ٤٢٣ - ٤٢٤، ط:  دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508100556

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں