بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دادا اور پوتے کا حصہ


سوال

اگر دادا اپنی زندگی  میں اپنی کل وراثت کو اپنے بیٹوں میں تقسیم کر دے اور اس کے بعد بیٹے اپنے اپنے حصے پر قبضہ بھی کر لیں اس کا دورانیہ تقریبًا دس سال ہو اور پھر بیٹے کا انتقال ہو جائے،  جب کہ والد زندہ ہو تو اس صورت میں میت کی اولاد بھی موجود ہو  یعنی دادا اور پوتے زندہ ہوں تو شرعی وارث کون بنے گا ؟

جواب

واضح رہے کہ انسان کا اپنی زندگی میں اپنی جائیداد میں سے کسی کو کچھ دینا ہبہ (گفٹ) کہلاتا ہے، اور   ہبہ (گفٹ) کے مکمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ واہب (ہبہ کرنے والا) موہوبہ چیز (جس چیز کا ہبہ کیا جارہاہے)  کو موہوب لہ (جس کو ہبہ کررہا ہے) کے نام کرنے کے ساتھ اس کا مکمل  قبضہ اور تصرف بھی دے دے، اور ہبہ کے وقت موہوبہ چیز سے اپنا تصرف مکمل طور پر ختم کردے، ورنہ شرعاً ہبہ درست نہیں ہوتا۔

صورتِ  مسئولہ میں والد نے  چوں کہ اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کر دی تھی اور ان کو قبضہ بھی دے دیا تھا تو  وہ تمام بیٹے اپنے اپنے حصے کے مالک ہو گئے تھے، اب جس بیٹے کا انتقال ہوا ہے، اس کے ترکے  میں اس کی اولاد اور  اس کے والد  دونوں کا حصہ ہوگا، اور اس کے  دیگر شرعی ورثاء کا بھی حصہ ہوگا۔

ورثاء کے شرعی حصے جاننے کے لیے ورثاء کی تفصیل لکھ کر سوال دوبارہ ارسال کردیجیے، یعنی میت کی بیوہ اور والدہ ہیں  یا نہیں؟ بیٹے، بیٹیاں  کتنے ہیں؟

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".

(4/378،  الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، ط؛ رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".

(ج؛ 5/ص؛690/کتاب الھبۃ، ط ؛ سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144111201396

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں