باپ کے انتقال کے بعد بیٹے کو دادا سے وراثت ملے گی یا نہیں ؟
واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے حقِ وراثت کا مدار قرابت داری پر رکھا ہے،لہذا میت کے ساتھ رشتہ میں جو زیادہ قریب ہوگا وہ استحقاقِ وراثت میں مقدم ہوگا اور اس کی موجودگی میں دیگر وہ رشتہ دار جو قرابت داری میں دور ہوں محروم قرار پائیں گے۔
صورتِ مسئولہ میں پوتا علی الاطلاق محروم نہیں ہوتا، بلکہ اس وقت محروم ہوتا ہے جب کہ دادا کے بیٹے موجود ہوں، اس لیے کہ بیٹے پوتے کےمقابلہ میں میت سے زیادہ قریب ہیں اور قریب کا تعلق بعید کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے ،لہذا وہی مستحقِ وراثت ہے؛ البتہ اگر میت کی وفات کے وقت اس کا کوئی بیٹا حیات نہ ہو اور پوتاحیات ہو تو پوتا اس کا وارث بنتا ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
و يستحق الإرث بإحدى خصال ثلاث: بالنسب و هو القرابة، و السبب وهو الزوجية، والولاء
(الباب الثانی فی ذوی الفروض، ج:6، ص:447، ط: دار الفکر)
عمدۃ القاری میں ہے:
و قال زيد : ولد الأبناء بمنزلة الولد إذا لم يكن دونهم ولد ذكر ذكرهم كذكرهم وأنثاهم كأنثاهم يرثون كما يرثون ويحجبون كما يحجبون ولا يرث ولد الابن مع الابن
( باب ميراث ابن الابن إذا لم يكن ابن، ج:23، ص:238، ط:داراحیاء التراث العربی)
تکملہ فتح الملہم میں ہے:
’وقد ذکر الإمام أبوبکر جصاص الرازي رحمه اللّٰه في أحکام القرآن، و العلامة العیني في عمدة القاري: الإجماع علی أن الحفید لایرث مع الابن‘‘.
(تکملة فتح الملهم ۲/۱۸)
’’ولو کان مدار الإرث علی الیتم والفقر والحاجة لما ورث أحد من الأقرباء والأغنیاء، وذهب المیراث کله إلی الیتامیٰ والمساکین … وأن معیار الإرث لیس هو القرابة المحضة ولا الیُتم والمسکنة، وإنما هو الأقربیة إلی المیت‘‘.
(تکملة فتح الملهم ۲/۱۷-۱۸) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144112201180
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن