بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دادا کا نا بالغ پوتوں کی زمین فروخت کرنا


سوال

ہمارے پاس ایک مشترکہ زمین تھی جو کہ میرے اور میرے سات بیٹوں اور تین پوتوں کے درمیان مشترک تھی ،میں نے کچھ عرصہ قبل  یہ  مشترکہ زمین اپنی اور بیٹوں کی  مرضی سے اپنے بڑے بیٹے کے کسی مسئلے میں فروخت کردی  پھر میں نے بڑے بیٹے سے اس کی ذاتی زمین،مشترکہ زمین (جو میں نے اس کے کسی مسئلے میں فروخت کی تھی )کے عوض میں لے لی  ،پھر میں نے یہ زمین اپنے بیٹوں کے درمیان تقسیم کردی اور بڑے بیٹے کو بھی حصہ دیا لیکن پوتوں کو حصہ  نہیں دیا۔اور پوتوں کو اس بیع کا علم نہیں تھا اور نہ  ہی ان کو اس  تقسیم کا علم  ہے۔واضح رہے کہ جب میں نے مشترکہ زمین فروخت کی تھی اس وقت پوتے نابالغ تھے اور ان کا باپ زندہ تھا ،میں نے اپنے آپ کو پوتوں کا ولی سمجھ کر مذکورہ معاملہ کیا تھا ،پوتوں کے والد سے ان کے حصے کے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی تھی البتہ  ان کو معلوم تھا کہ اس زمین میں میرے بیٹوں کابھی حصہ ہے،لیکن انہوں نے فروختگی کے وقت کوئی بات نہیں کی تھی ۔اب تینوں پوتے بالغ ہیں ان میں سے دو نے دعوی کیا  ہے کہ آپ نے مشتری کو جو ہمارا  حصہ بیچاہے ہم  اس پر راضی نہیں ہیں،ہمیں اپنی زمین واپس دلائی جائے۔

یہ قومی مشترکہ زمین تھی،سربراہانِ قوم نے وہ زمین تقسیم کی اور ہر ایک فرد (چاہے بالغ ہو یا نابالغ )کو حصہ دیا تھا،تو یوں میرے پوتوں کو بھی حصہ دیا گیا تھا۔مذکورہ زمین کی واپسی ممکن ہے کیونکہ وہ اب تک مشتری کے پاس ہےاس نے کسی اور کو فروخت نہیں کیا ہے۔

پوچھنا یہ ہے کہ میں نے  جو مشتر کہ زمین فروخت کی ہے وہ بیع درست ہوئی یا نہیں ؟ اگر بیع درست ہو تو میں نے  جو تقسیم کی ہے وہ شرعاً درست ہے یا نہیں؟

 

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائل کا اپنے اور اپنے بیٹوں کے حصوں کے ساتھ اپنے پوتوں کے حصوں  کی زمین کو فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں تھا ؛کیونکہ پوتوں کا باپ زندہ تھا اور وہی ان کا ولی تھا ،باپ کی موجودگی میں سائل(دادا) پوتوں کا  ولی نہیں تھاتاہم مذکورہ وجہ کی بناء پر والد کو بھی اپنے نابالغ بیٹوں کی زمین کو فروخت کرنے کا اختیار نہیں تھا ؛لہذامذکورہ بیع شرعا ً نابالغ پوتوں  کے حصوں  میں نافذ  نہیں ہوئی ،بلکہ ان کے بالغ ہونے کے بعد کی اجازت پر موقوف تھی ، اور اب نابالغ پوتوں میں سےدو پوتے (جو اب بالغ ہیں)اپنے حصوں  کی زمین کی فروختگی پر راضی نہیں ہیں اور اپنے حصوں  کی زمین کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ان کے حصوں کے زمین کی واپسی بھی  ممکن ہے  تو ایسی صورت میں  شرعاً سائل(دادا) پر لازم ہے کہ وہ ان دونوں  کو ان کے زمین کا  حصہ  واپس دلائے،اور باقی جو ایک پوتا   مذکورہ بیع پر راضی ہے اس کو  اس کےحصے کی قیمت دےدے ۔اور پوتوں  کے حصوں کی  زمین کی واپسی کی صورت یہ ہو گی کہ  عاقدین ،سابقہ بیع کو فسخ کرکےاپنی اپنی چیزیں(یعنی مشتری ثمن اور بائع مبیع)واپس لےلیں اور سائل(دادا) اپنے مذکورہ  دو پوتوں کی زمین ان کو واپس کردے ۔اگر مشتری کسی صورت  زمین واپس کرنے پر راضی نہ ہو تو زمین کی موجودہ قیمت لگا کر جو حصہ پوتوں کا بنتا ہے وہ ان کو دیا جائے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

الولاية في مال الصغير للأب ثم وصيه ثم وصي وصيه ولو بعد، فلو مات الأب ولم يوص فالولاية لأبي الأب ثم وصيه ثم وصي وصيه فإن لم يكن فللقاضي ومنصوبه، ولو أوصى إلى رجل والأولاد صغار وكبار فمات بعضهم وترك ابنا صغيرا فوصي الجد وصي لهم يصح بيعه عليه كما صح على أبيه في غير العقار فليحفظ. وأما وصي الأخ والأم والعم وسائر ذوي الأرحام ففي شرح الإسبيجابي أن لهم بيع تركة الميت لدينه أو وصيته إن لم يكن أحد ممن تقدم لا بيع عقار الصغار إذ ليس لهم إلا حفظ المال ولا الشراء للتجارة ولا التصرف فيما يملكه الصغير، من جهة موصيهم مطلقا لأنهم بالنظر إليه أجانب، نعم لهم شراء ما لا بد منه من الطعام والكسوة

(کتاب الوصایا،باب الوصي،ج۶،ص۷۱۴،ط:سعید)

الدر المختار و حاشية ابن عابدين میں ہے:

قلت: وفي الزيلعي والقهستاني الأصح لا لأنه نادر، وجاز بيعه عقار صغير من أجنبي لا من نفسه بضعف قيمته، أو لنفقة الصغير أو دين الميت، أو وصية مرسلة لا نفاذ لها إلا منه، أو لكون غلاته لا تزيد على مؤنته، أو خوف خرابه أو نقصانه، أو كونه في يد متغلب درر وأشباه ملخصا.(قوله وجاز بيعه عقار صغير إلخ) أطلق السلف جواز بيعه العقار وقيده المتأخرون بالشروط المذكورة كما في الخانية وغيرها. قال الزيلعي: قال الصدر الشهيد وبه يفتى: أي بقول المتأخرين

(کتاب ا لوصایا،باب الوصی:711/6،ط:سعید)

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

(كما بطل) (بيع صبي لا يعقل ومجنون) شيئا (وبيع ما ليس في ملكه) (قوله وبيع ما ليس في ملكه) فيه أنه يشمل بيع ملك الغير لوكالة أو بدونها مع أن الأول صحيح نافذ والثاني صحيح موقوف.........اذ من شرط المعقود عليه :ان يكون موجودا،مالا متقوما مملوكا في نفسه ،وان يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه                             

          (باب البيع الفاسد:5/59 ،ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

ولا بيع ما ليس مملوكا له وإن ملكه بعده إلا السلم،......وأما شرائط النفاذ فنوعان أحدهما الملك أو الولاية والثاني أن لا يكون في المبيع حق لغير البائع

(کتاب البیوع،ج۳،ص۳،ط:دار الفکر)

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

وأما الفاسد فعقد مخالف للدين ثم إن أفاد الملك وهو مقصود في الجملة لكن لا يفيد تمامه إذ لم ينقطع به حق البائع من المبيع ولا المشتري من الثمن إذ لكل منهما الفسخ بل يجب عليه

(كتاب البيوع:باب البیع الفاسد،4 /44،المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)

الاختيار لتعليل المختار میں ہے:          

(وهو يفيد الملك بالقبض) بأمر البائع صريحا أو دلالة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (و) لهذا كان. (لكل واحد من المتعاقدين فسخه) إزالة للخبث ورفعا للفساد.

(باب البيع الفاسد وأحكامه:2/22،ط: مطبعة الحلبي – القاهرة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100282

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں