بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دادا اگر کماتا نہ ہو تو پوتیوں کے اخراجات کس کے ذمہ ہیں؟


سوال

۱) میں دل کا مریض ہوں ، میری عمر ساٹھ سال ہے، منسلک شدہ فتوی کے مطابق میں اپنی پوتیوں کا خرچہ اٹھانے کا پابند ہوں، حالاں کہ میں خود کماتا نہیں ہوں ، ایسی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟

۲)  میں اپنی پوتیوں کا تعلیمی خرچہ اپنے بیٹے کی مدد سے ادا کرنا چاہتا ہوں  یعنی اسکول کی فیس وغیرہ دینا چاہتا ہوں تو کیا ایسی صورت میں اسکول کی فہرست میں ان کا سرپرست مجھے ہونا چاہیے یا ان کی والدہ ( میری بہو) کو؟

وضاحت: میں خود سرپرست اس لیے لکھوانا چاہتا ہوں تاکہ میں اسکول جا کر اور تعلیمی عملہ سے مل کر پوتیوں کی تعلیمی کارکردگی کی نگرانی کرسکوں ۔

جواب

۱) صورتِ مسئولہ میں اگر سائل خود بوڑھا ہے اور کماتا نہیں ہے اور سائل کا خود کا خرچہ بھی سائل کا بیٹا برداشت کرتا ہے تو پھر مذکورہ صورت میں اگر سائل کی بہو (پوتیوں کی ماں) مال دار ہے تو پھر سائل کی  پوتیوں کا خرچہ سائل کے بیٹے (یعنی پوتیوں کے چچا) اور سائل کی بہو (پوتیوں کی ماں)  پر ہوگا،ایک تہائی بہو پر اور دو تہائی سائل کے بیٹے پر ہوگا اور اگر بہو مال دار نہیں ہے تو پھر پوتیوں کا مکمل خرچہ سائل کے بیٹے پر ہوگا۔

۲)  سائل  کے لیے جائز ہے کہ وہ اسکول میں اپنے آپ کو سرپرست  لکھوائے اور پوتیوں کی تعلیمی کارکردگی کی نگرانی کرے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو كان له أم وجد فإن نفقته عليهما أثلاثا على قدر مواريثهما، الثلث على الأم والثلثان على الجد، وكذلك إذا كان له أم وأخ لأب وأم، أو ابن أخ لأب وأم، أو عم لأب وأم، أو واحد من العصبة فإن النفقة عليهما أثلاثا على قدر مواريثهما."

(کتاب الطلاق باب النفقات ج نمبر ۱ ص نمبر ۵۶۶، دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والأصل في هذا أن كل من كان يحرز جميع الميراث، وهو معسر يجعل كالميت وإذا جعل كالميت كانت النفقة على الباقين على قدر مواريثهم، وكل من كان يحرز بعض الميراث لا يجعل كالميت فكانت النفقة على قدر مواريث من كان يرث معه، بيان."

(کتاب الطلاق باب النفقات ج نمبر ۱ ص نمبر ۵۶۶، دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"القسم السادس: الأصول مع الحواشي، فإن كان أحد الصنفين غير وارث اعتبر الأصول وحدهم ترجيحا للجزئية ولا مشاركة في الإرث حتى يعتبر فيقدم الأصل سواء كان هو الوارث أو كان الوارث الصنف الآخر، مثال الأول ما في الخانية: لو له جد لأب وأخ شقيق فعلى الجد. اهـ

ومثال الثاني ما في القنية: لو له جد لأم وعم فعلى الجد. اهـ. أي لترجحه في المثالين بالجزئية مع عدم الاشتراك في الإرث؛ لأنه هو الوارث في الأول، والوارث هو العم في الثاني، وإن كان كل من الصنفين أعني الأصول والحواشي وارثا اعتبر الإرث. ففي أم وأخ عصبي أو ابن أخ كذلك أو عم كذلك، على الأم الثلث وعلى العصبة الثلثان بدائع."

(کتاب الطلاق باب النفقۃ ج نمبر ۳ ص نمبر  ۶۲۵، ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100434

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں