بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

داڑھی کی شرعی حیثیت


سوال

 بعض لوگ کہتے ہیں کہ داڑھی چھوڑنا تو ثواب کا کام   ہے  ،لیکن اس کے کاٹنے میں کوئی گناہ نہیں ،اس کے بارے میں کوئی مستند روایت ہو تو بتادیجیے۔

جواب

واضح رہے کہ داڑھی   کے بارے میں مختلف احادیث وارد ہوئی ہیں اور انہی احادیث کی روشنی میں  فقہائے کرام رحمہم اللہ نے اس کی شرعی حیثیت بیان کی ہے۔ذیل میں  اس سلسلے کی چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں:

پہلی حدیث:

"حدّثنا قُتيبة بن سعيدٍ وأبو بكر بن أبي شيبة وزُهير بن حربٍ، قالوا: حدّثنا وكيعٌ عن زكريا بن أبي زائدة عن مصعب بن شيبة عن طلق بن حبيبٍ عن عبد الله بن الزّبيرعن عائشة-رضي الله عنها- قالت: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: عَشرٌ مِن الفطرة: قصُّ الشارب، وإعفاءُ اللِّحية ... إلخ".

ترجمہ:

’’(حضرت )عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:دس چیزیں فطرت میں داخل ہیں:مونچھوں کو کٹوانا اور ڈاڑھی کا بڑھانا۔۔۔الخ‘‘۔

(صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب خصال الفطرة، رقم:261، 1/223، ط: دار إحياء التراث العربي-بيروت)

دوسری حدیث:

"حدّثنا محمّد بن المثنّى، حدّثنا يحيى يعني ابن سعيدٍ ح، وحدّثنا ابن نُميرٍ، حدّثنا أبي، جميعاً عن عبيد الله عن نافعٍ عن ابن عمر-رضي الله عنهما- عن النبيِّ -صلّى الله عليه وسلّم- قال: أُحفُوا الشّواربَ وأعفُوا اللُّحَى". "وحدّثناه قُتيبة بن سعيدٍ عن مالك بن أنسٍ عن أبي بكر بن نافعٍ عن أبيه عن ابن عمر-رضي الله عنهما- عن النبيِّ -صلّى الله عليه وسلّم- أنّه أمرَ بِإِحفاء الشّوارب، وإِعفاء اللّحية".

ترجمہ:

’’(حضرت  عبد اللہ) ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مونچھوں کوکٹواؤ اور داڑھی بڑھاؤ۔اور ایک روایت  میں ہے  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مونچھوں کو کٹوانے اور داڑھی بڑھانے کا حکم فرمایا‘‘۔

(صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب خصال الفطرة، رقم:259، 1/222، ط: دار إحياء التراث العربي-بيروت)

تیسری حدیث:

"حدّثنا محمّد بن مِنهال، حدّثنا يزيد بن زُريع، حدّثنا عمر بن محمد بن زيد عن نافعٍ عن ابن عمر-رضي الله عنهما- عن النبي -صلّى الله عليه وسلّم- قال: خالفُوا المشركين: وفِّروا اللُّحَى، وأَحفُوا الشّوارب".

ترجمہ:

’’(حضرت عبد اللہ) ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مشرکوں کی مخالفت کرو، داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کٹاؤ‘‘۔

(صحيح البخاري، كتاب اللباس، باب تقليم الأظفار، رقم:5892، 7/160، ط: دار طوق النجاة)

چوتھی حدیث:

"حدّثني أبو بكر بن إسحاق، أخبرنا ابن أبي مريم، أخبرنا محمّد بن جعفر، أخبرني العلاء بن عبد الرحمن بن يعقوب-مولى الحُرَقة- عن أبيه عن أبي هريرة-رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلّى الله عليه وسلّم-: جُزُّوا الشّوارب، وأَرخُوا اللُّحَى، خالفُوا المجوس".

ترجمہ:

’’(حضرت) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مونچھیں کٹواؤ اورداڑھیاں بڑھاؤ، مجوسیوں کی مخالفت کرو‘‘۔

(صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب خصال الفطرة، رقم:259، 1/222، ط: دار إحياء التراث العربي-بيروت)

پانچویں حدیث:

"حدّثنا أحمد بن مَنيعٍ، قال: حدّثنا عَبيدة بن حميدٍ عن يوسف بن صهيبٍ عن حبيب بن يسارٍ عن زيد بن أرقم-رضي الله عنه- أنّ رسول الله -صلّى الله عليه وسلّم- قال: مَن لم يأخُذ مِن شَاربِه فَليسَ مِنّا. قال أبو عيسى: هَذا حديثٌ حسنٌ صحيحٌ".

ترجمہ:

’’(حضرت) زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جومونچھیں نہ کٹوائے وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔

(سنن الترمذي، أبواب الأدب، باب ما جاء في قص الشارب،  رقم:2761، 5/93، ط: مصطفى البابي الحلبي-مصر)

حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ ’’اختلاف ِ امت اور صراطِ مستقیم ‘‘ میں مذکورہ بالا احادیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’’پہلی حدیث سے معلوم ہوا کہ مونچھیں کٹانا اور داڑھی بڑھانا انسان کی فطرتِ سلیمہ کا تقاضا ہے، اور مونچھیں بڑھانا اور داڑھی کٹانا خلافِ فطرت ہے۔اور جولوگ ایسا کرتے ہیں وہ فطرۃُ اللہ کو بگاڑتے ہیں۔۔۔’’تفسیرِ حقانی ‘‘ اور ’’تفسیرِ بیان القرآن‘‘ وغیرہ میں ہے کہ  داڑھی منڈانا بھی تخلیقِ خداوندی   کو بگاڑنے  میں داخل ہے؛ کیوں کہ اللہ تعالی نے مرادنہ چہرے کو  فطر ۃً داڑھی کی زینت ووجاہت عطافرمائی ہے۔۔۔  حضرات انبیاء علیہم السلام کا طریقہ ہی صحیح فطرتِ انسانی کا معیا ر ہے، اس لیے فطرت سے مراد انبیاء علیہم السلام کا طریقہ اور ان کی سنت بھی ہوسکتی ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ مونچھیں  کٹوانا اور داڑھی بڑھانا ایک لاکھ چوبیس ہزار(کم وبیش) انبیاء  کرام علیہم السلام کی  متفقہ سنت ہے۔۔۔دوسری حدیث میں  مونچھیں کٹوانے  اور داڑھی بڑھانا کا حکم دیا ہے، اور حکم ِنبوی کی تعمیل ہر مسلمان پر واجب ہے، اور اس کی مخالفت حرام ہے ،پس اس وجہ سے بھی داڑھی رکھنا واجب، اور اس کا کاٹنا حرام ہوا۔تیسری اور چوتھی حدیث میں فرمایاگیا ہے کہ  مونچھیں کٹوانا اور داڑھی رکھنا مسلمانوں کا شعار ہے ،اس کے برعکس مونچھیں بڑھانا اور داڑھی   منڈانا مجوسیوں اور مشرکوں کا شعار ہے، او رآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو مسلمانوں کا شعار اپنانے اور مجوسیوں کے شعار کی مخالفت کرنے کی تاکید  فرمائی ہے۔اسلامی شعار کو چھوڑ کر  کسی گمراہ قوم کا شعار اختیار کرنا حرام ہے۔۔۔پانچویں حدیث میں فرمایاگیاہے کہ جو لوگ مونچھیں  نہیں کٹواتے وہ  ہماری جماعت میں شامل نہیں ۔ظاہر ہے کہ یہی حکم داڑھی منڈانے  کا ہے۔۔۔اس پانچویں حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ  مونچھیں بڑھانا اور اسی طرح داڑھی منڈانا اورکترانا حرام او رگناہِ کبیرہ ہے، کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی گناہِ کبیرہ پر ہی ایسی وعید فرماسکتے ہیں کہ ایسا کرنے والا  ہماری جماعت میں سے نہیں ہے۔۔۔ان تمام نصوص کے پیشِ نظر فقہائے امت   اس پر متفق ہیں کہ   داڑھی  بڑھانا واجب ہے، اور یہ اسلام کا شعار ہے، اور اس کا  منڈانا،یاکترانا،جب کہ حدِشرعی( ایک  مٹھی) سے کم ہو، حرام اور گناہِ کبیرہ ہے‘‘۔

(اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم،عنوان:داڑھی کی شرعی حیثییت اور منڈانےیا کترانے کا عمل،ص:۲۴۳۔۲۴۷،ط:مکتبہ بینات،کراچی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100982

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں