بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

داڑھی کی شرعی حد اور گال (رخسار) کے بالوں کو صاف کرنے کا حکم


سوال

1.داڑھی رکھنے کی شرعی حدود اور طریقہ بتادیں؟

2.کیا چہرے پر اگر گال پربال آرہے ہوں تو انہیں صاف کرسکتے ہیں یا نہیں؟ 

جواب

1۔داڑھی کی شرعی  حدود کانوں کے پاس جہاں سے جبڑے کی ہڈی شروع ہوتی ہے یہاں سے داڑھی کی ابتدا ہے اور پورا جبڑا داڑھی کی حد ہے اور جو بال رخسار اور جبڑوں کے نیچے گلے پر ہوں ان پر شرعاً داڑھی کا اطلاق نہیں ہوتا، اور بالوں کی لمبائی کے لحاظ سے  داڑھی کی مقدار ایک مشت ہے،اس سے زائد بال ہوں  تو ایک مشت کی حد تک  چھوڑ کر زائد کو کاٹ سکتےہیں۔

2.مذکورہ حدود کے اندر ہونے والے داڑھی کے بالوں کے علاوہ رخسار (گال)پر جو  بال موجود ہیں وہ چوں کہ شرعاً داڑھی کی حدود میں نہیں آتے، اس لیے ان کو صاف کر سکتے ہیں۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خالفوا المشركين ‌أحفوا ‌الشوارب، وأوفوا اللحى".

(كتاب الطهارة، باب خصال الفطرة:ج: 1، ص:222، ط:دار إحياء التراث العربي)

”حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہےوہ فرماتے ہیں:    کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔“

البحر الرائق میں ہے:

" وفي شرح الإرشاد اللحية الشعر النابت بمجتمع اللحيين والعارض ما بينهما وبين العذار وهو القدر المحاذي للأذن يتصل من الأعلى بالصدغ ومن الأسفل بالعارض."

(کتاب الطهارة، سنن الوضوء: ج1، ص:16، ط: دار الکتاب الإسلامي)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة، ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد، وأخذ كلها فعل يهود الهند ومجوس الأعاجم."

(‌‌کتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده: 2/ 418، ط: سعید)

وفیه أیضاً:

"(قوله: جميع اللحية) بكسر اللام وفتحها، نهر، وظاهر كلامهم أن المراد بها الشعر النابت على الخدين من عذار وعارض والذقن.
وفي شرح الإرشاد: اللحية الشعر النابت بمجتمع الخدين والعارض ما بينهما وبين العذار وهو القدر المحاذي للأذن، يتصل من الأعلى بالصدغ ومن الأسفل بالعارض، بحر".

(کتاب الطهارة: ج:1، ص:100، ط: سعید)

الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

"اللحية لغة : الشعر النابت على الخدين والذقن ، والجمع اللحى واللحى . ورجل ألحى ولحياني : طويل اللحية ، واللحي واحد اللحيين وهما : العظمات اللذان فيهما الأسنان من الإنسان والحيوان ، وعليهما تنبت اللحية . واللحية في الاصطلاح ، قال ابن عابدين : المراد باللحية كما هو ظاهر كلامهم الشعر النابت على الخدين من عذار ، وعارض ، والذقن".

(اللحیة: ج:35، ص: 222، ط: دار السلاسل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408100904

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں