بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق کےمتعلق چند سوالات


سوال

(1) قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق کا کیا جائے (١)دفن کیا جائے (٢)یا پھر نذر آتش کردیا جائے (٣)یا یہ کہ ان اوراق کو پانی کے حوالے کر دیا جائے؟  کیا دفن کرنا ہی ضروری ہے ؟اگر دفن ہی ضروری ہے تو اس کی صورت کیا ہوگی ؟کیا جس طرح سے مردوں کو دفن کیا جائے گا یعنی قبر بنا کر پٹاؤ وغیرہ لگا کر،نیز کیا یہ صورت لازم و ضروری ہے ؟یا پھر یہ کہ ایک گہرا گڑھا کھودا جائے اور پاک صاف کپڑے میں لپیٹ کر بدون لکڑی وغیرہ لگائےدفن کر دیا جائے نیز یہ صورت جائز ہےیا نا جائز ؟اگرجائز ہےتو کس حد تک جائز ہے؟فرض ،واجب،یاپھر مباح۔

(2)نیز اس کا کیا جواب ہوگا "وَيَنْبَغِي أَنْ يُلَفَّ بِخِرْقَةٍ طَاهِرَةٍ، وَيُلْحَدَ لَهُ لِأَنَّهُ لَوْ شُقَّ وَدُفِنَ يَحْتَاجُ إلَى إهَالَةِ التُّرَابِ عَلَيْهِ، وَفِي ذَلِكَ نَوْعُ تَحْقِيرٍ إلَّا إذَا جُعِلَ فَوْقَهُ سَقْفٌ وَإِنْ شَاءَ غَسَلَهُ بِالْمَاءِ أَوْ وَضَعَهُ فِي مَوْضِعٍ طَاهِرٍ لَا تَصِلُ إلَيْهِ يَدُ مُحْدِثٍ وَلَا غُبَارٌ، وَلَا قَذَرٌ تَعْظِيمًا لِكَلَامِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ اهـ. حاشية ابن عابدين (رد المحتار، 6/422)نیز عبارت میں موجود"وفی ذالک نوع تحقیر"کو بنیاد بنا کر شق ثانی کوبالکل ناجائز و غلط قرار دیا جا سکتا ہے؟ اور ناجائز ہے تو کس حد تک ناجائز ہےیعنی حرام ہے، مکروہ تحریمی ہے یا پھر مکروہ تنزیہی،اگر خلاف ادب ہے ،تو اس کا کیا جواب ہوگا ۔

(3) کفایت المفتی میں اورفتاوی قاسمیہ  میں صراحتاً جلانےکی اجازت دی گئی ہے بلکہ فتاویٰ قاسمیہ میں تو نذر آتش کیے جانے کی صورت ہی کو راجح قرار دیا ہے،تو ان فتاویٰ کا کیا جواب رہے گا ؟نیز اس صورت میں قرآن پاک کے حوالے بے ادبی بھی مترشح ہوتی اس کا کیا جواب رہے گا ؟

جواب

(1)فقہاء حنفیہ نے ترجیح اس کو دی ہے کہ قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق کو جلانے کے بجائے یا تو کسی محفوظ جگہ پر دفن کر دیا جائے یا اگر وہ اوراق دھل سکتے ہوں تو حروف کو دھو کر ان کا پانی کسی کنوئیں یا ٹنکی وغیرہ میں شامل کر دیا جائے ، اوراق کادفناناضروری نہیں ہے،لہٰذا ان اوراق کوبےادبی اوراہانت سےمحفوظ کرنےکےلیےجوبھی طریقہ بہتراورآسان ہواسی طریقےپرعمل کرناچاہیے،اگران اوراق کودفنانا پڑےتو دفن کرنے کے لئے بھی  فقہائے حنفیہ کی تصریح کے مطابق سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ان اوراق کو کسی کپڑے میں لپیٹ کر لحد بناکر میت کی طرح  اس میں دفن کردیا جائے،باقی رہی یہ صورت کہ ایک گہرا گڑھاکھود کر کسی پاک صاف کپڑےمیں لپیٹ کربغیر لکڑی وغیرہ لگائےدفن کرنا،تو یہ طریقہ مناسب نہیں ہے؛ کیوں کہ اس طرح کرنے میں ان بوسیدہ اوراق کی اہانت کااندیشہ ہے۔

(2)قرآن کریم کےبوسیدہ اوراق کوبغیرکسی کپڑےمیں لپیٹے یاان کےاوپر کوئی تختہ رکھے بغیر انہیں کسی گڑھےمیں دفناناجائزنہیں ہےکیوں کہ اس طرح کرنےمیں قرآن کریم کی اہانت کااندیشہ ہے۔

(3) دونوں طریقوں  کے  نفسِ  جواز کے قائل سارے اکابر ہیں، لیکن زمانے کے اور علاقے اور مصلحت کو سامنے رکھتے ہوئے کسی صورت میں جلانا بہتر قراردیا ہے، جیسا کہ مفتی کفایت اللہ صاحب نے فرمایا کہ ایسا مکان  نہ ہو   جہاں احترام کے ساتھ دفن کیا جائے  تو احترام نہ ہونے کی وجہ سے جلانا  راجح ہے،  جب مکان معزز ومحفوظ موجود ہو تو دیگر اکابر نے  دفن کو اولی قرار دیا ہے، البتہ بعض فتاوی جات میں  جلانے  کو  سدِّ  ذرائع کی وجہ سے منع کیاہے، اسی بنیا د پر موجودہ دور میں فتوی اسی پر دیا جاتا ہے  کہ جلانا درست نہیں ہے، اور دفن محترم طریقے سے کیا جائے ۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"الكتب التي لا ينتفع بها يمحى عنها اسم الله وملائكته ورسله ويحرق الباقي ولا بأس بأن تلقى في ماء جار كما هي أو تدفن وهو أحسن كما في الأنبياء....المصحف إذا صار خلقا وتعذر القراءة منه لا يحرق بالنار إليه أشار محمد وبه نأخذ، ولا يكره دفنه، وينبغي أن يلف بخرقة طاهرة، ويلحد له لأنه لو شق ودفن ‌يحتاج ‌إلى ‌إهالة ‌التراب ‌عليه، وفي ذلك نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقف وإن شاء غسله بالماء أو وضعه في موضع طاهر لا تصل إليه يد محدث ولا غبار، ولا قذر تعظيما لكلام الله عز وجل."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة، ج:6، ص:422، ط: سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"المصحف إذا صار خلقا لا يقرأ منه ويخاف أن يضيع يجعل في خرقة طاهرة ويدفن، ودفنه أولى من وضعه موضعا يخاف أن يقع عليه النجاسة أو نحو ذلك ويلحد له؛ لأنه لو شق ودفن يحتاج إلى إهالة التراب عليه، وفي ذلك نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقف بحيث لا يصل التراب إليه فهو حسن أيضا، كذا في الغرائب....المصحف إذا صار خلقا وتعذرت القراءة منه لا يحرق بالنار، أشار الشيباني إلى هذا في السير الكبير وبه نأخذ، كذا في الذخيرة."

(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن، ج:5، ص:323، ط: دار الفكر بيروت)

کفایت المفتی میں ہے:

"قرآن مجید کے بوسیدہ اوراق کو جلانے کا حکم .

(سوال) اگر بوسیدہ اوراق قرآن مجید کو اس خیال سے جلا دیا جائے کہ ان کی توہین نہ ہو تو یہ فعل جائز ہے یا نا جائز ؟

(المستفتی نمبر ۶۳۴ مولوی نور اللہ (ضلع لائل پور ( ۲ رجب ۱۳۵۴ هم یکم اکتوبر ۱۹۳۵ء)

جواب (۱۲۲) توہین سے محفوظ رکھنے کی غرض سے جلانا مباح ہے، حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مصاحف کو جب کہ ان کو باقی رکھنا مناسب نہ تھا، جلا دیا تھا۔"

فقط  محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ دہلی۔"

(کفایت المفتی ،کتاب العقائد، ج:1، ص:126، ط:دارالاشاعت)

وفیہ ایضاً:

قرآن مجید کے بوسیدہ اوراق کا حکم .

"(سوال) پرانے ورق مصحف کے کہ قابل انتفاع نہ رہیں تو آگ (۱) میں جلائے جائیں یا پانی (۲) میں دھوئےجائیں پھر پانی کو پاک جگہ میں ڈالا جائے ،یاز مین میں محفوظ جگہ پر دفن کئے جائیں۔ جیسا کہ فقہاء نے لکھا ہےالمصحف اذا صار بحال لا يقرء فيه يدفن كالمسلم رد المحتار جلد اول ص ۱۳۰ قوله يد فمن أي يجعل في خرقة طاهرة ويد فن في محل غير ممتهن لا يوطاً وفي الذخيرة وينبغي ان يلحد له ولا يشق له لا نه يحتاج الى اهلة التراب عليه وفي ذلك نوع تحقير الا اذا جعل فوقه سقفا بحيث لا يصل التراب اليه فهو حسن ایضا الخ در مختار جلد اول ۱۳۰ قوله کا المسلم فانه مكرم واذا مات و عدم نفسه يد فن وكذلك المصحف فليس في اهانة اهالة له بل ذلك اكرام خوفا من الامتهان در مختار جلد اول ص ۱۳۱ . بينوا توجروا

المستفتی نمبر ۷۵۱ مولوی سراج الدین ( ضلع ملتان ) ۸ ذی قعده ۳۵۴ ادهم ۱۲ فروری ۱۹۳۶ء

(جواب ١٢٤) محفوظ مقام میں دفن کر دینا بھی جائز ہے، لیکن جلا دینا آج کل زیادہ بہتر ہے؛ کیوں کہ ایسا محفوظ مقام دستیاب ہونا مشکل ہے کہ وہاں آدمی یا جانور نہ پہنچ سکیں، اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا مصاحف کو جلانا اس کے جواز کی دلیل ہے۔  محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ ،دہلی۔

(جواب ١٢5)  دیگر بوسیدہ اوراق قرآن مجید جن انتفاع کے قابل نہ  رہیں تو ان کو دفن کرنا چاہیے،مگر ایسے مقام پر کہ وہاں آدمیوں یا جانوروں کے قدم نہ پہنچیں، اور اگر ایسا مقام دستیاب نہ ہو،تو پھر احتیاط سے جلا کر  راکھ دریا میں بیا دینا چاہئے، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے  مصاحف کو  اسی غرض  سے جلادیا تھا،جلانا بغرض احترام ناجائز نہیں  ہے۔ 

محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ ،دہلی۔

(کفایت المفتی ،کتاب العقائد، ج:1، ص:127، ط:دارالاشاعت)

وفیہ ایضاً:

"قرآن کریم کے بوسید ہ اوراق کا حکم .

(سوال) قرآن مجید کے اوراق کہنہ کو کس طرح ضائع کیا جائے ؟

(از اخبار سه روز و اجتمع و جلی موری ۲۲ ستمبر (۱۹۲۵ء)

(جواب ١٣٤فقہائے  کرام نے قرآن پاک کے اوراق کہنہ کے لئے یہ ترکیب بتائی ہے کہ ان کو کسی برتن میں رکھ کر بغلی قبر کے مشابہ گڑھا کھود کر ایسے مقام میں دفن کر دیا جائے جہاں آدمی اور جانور نہ پہنچتے ہوں ، مگر ایسی جگہ کا آج کل ملنا مشکل ہے ، اس لیے اگر جلا کر ان کی راکھ دریا میں ڈال دی جائے تو اس میں زیادہ امن ہے۔ "

محمد کفایت اللہ غفر لہ۔"

(کفایت المفتی ،کتاب العقائد، ج:1، ص:131، ط:دارالاشاعت)

امداد الفتاوی میں ہے:

"قرآنی آیات لکھے ہوئے اخبارات کو جلانے کا حکم

سوال (۲۳۱۶) :  قدیم  ۴/ ۵۵-   اکثر اشتہارات قرآن مجید کے ایسے شائع ہوتے ہیں کہ ایک طرف اشتہار ہوتا ہے اور ایک جانب قرآن مجید اور تمام گلی کوچوں میں نہایت بے تعظیمی سے پڑے رہتے ہیں ، جن کے پاس پہنچتا ہے وہ بھی کچھ خیال نہیں کرتے۔ اِلاّ مَن شاء اللّٰہ۔ ایسے اشتہارات یا اوراق پردف وغیرہ کے قسم سے (جو اکثر دہلی کے پارسلوں میں قرآن وحدیث میں آتے ہیں ) جلائے جاویں تو جائز ہے یا نہیں ؟ جلانے سے ان کی راکھ اور راکھ سے جوچولہے میں ہے مخلوط ہوجائے گی، پھروہ واجب التعظیم رہے گی یا نہیں ؟ قرآن شریف یا پارۂ عم وغیرہ جو لڑکوں کے پڑھنے میں شکست وبیکار ہوجاتے ہیں ، ان کا دفن کرنا ممکن ہے، مگر اُن روایات کاہر وقت دفن کرنا غیر ممکن ہے، بالخصوص ایسے شہروں میں جہاں قبرستان دومیل کے فاصلہ پر ہو، اس باب میں جیسے رائے عالی ہو مطلع فرماکر سرفراز فرمایئے۔

الجواب:  اس احراق میں اختلاف ہے؛ اس لیے فعل میں بھی گنجائش ہے اور ترک احوط ہے اور تقدیر ترک پر یہ صورت سہل ہے کہ ان روایات کو جمع کرتے رہیں ۔ جب معتدبہ ذخیرہ ہوجاوے دفن کرا دیں (۱)۔ اور احراق کی صورت میں اس کی خاکستر بنا برقاعدۂ قلبِ ماہیت کے واجب الاحترام تو نہیں ہے؛ لیکن اگر اس کو جداگانہ کسی ظرف میں جلاکر اس خاکستر کو پانی میں گھول کر دریا میں بہادیا جاوے تو اور بھی زیادہ اقرب الی الادب ہے۔ ۲۰؍ ذی الحجہ ۱۳۳۳؁ ھ (حوادث ثالث ص۱۶۳) 

(امداد الفتاوی،کتاب الحظر والاباحۃ،  ج:8، ص:470 ، ط: رشیدیہ)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق کوجلانا

سوال:-قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق کواگرکوئی آگ میں جلادے تاکہ بے حرمتی سے بچ جائے تواس میں کوئی گناہ تونہیں؟

الجواب حامداً ومصلیاً:

اس میں کوئی گناہ نہیں، لیکن پاک کپڑے میں لپیٹ کرمحفوظ جگہ دفن کرنا اس سے بھی بہترہے۔ "

 فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم

  حررہٗ العبدمحمودگنگوہی عفااللہ عنہ معین مفتی مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور

  الجواب صحیح : سعیداحمدغفرلہٗ    صحیح: عبداللطیف یکم ربیع الثانی ۵۷ھ مظاہرعلوم۔"

(فتاوی محمودیہ، ج:3، ص:544، ط:ادارۃ الفاروق)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"قرآن مجید کے بوسیدہ اور اق کا کیا حکم ہے ؟ اگر کوئی جلائے تو اس کا کیا حکم:

(سوال ۵) قرآن مجید کے پرانے ، بوسیدہ اور پھٹے ہوئے اور کرم خور دہ کاغذوں  کا کیا کیا جائے اگر کوئی شخص ایسے کاغذات کو دفن کر نے سے پہلے جلا ڈالے تو ایسے شخص کے متعلق شرعاً کیا حکم ہے۔بینواتوجروا۔

(الجواب)قرآن کریم (کے اوراق) کو جو بوسیدہ یا دیمک خوردہ ، ناقابل انتفاع ہوچکے ہوں  ایسے پاک کپڑے میں  لپیٹ کر کسی محفوظ جگہ میں  جہاں  لوگوں  کی آمدو رفت بالکل نہ ہو یا کم ہو دفن کر دیا جائے جیسا کہ مسلمان میت کو دفنا یا جاتا ہے ۔

"(۱) وفی الذخیرۃ المصحف اذا صارخلقا وتعذرت القرأۃ منه لا یحرق بالنار الیه اشار محمد وبه نأخذ ولا یکرہ دفنه وینبغی أن یلف بخرقة طاھرۃ ویلحد له لا نه لوشق ودفن یحتاج إلیٰ اهالة التراب علیه وفی ذلک نوع تحقیر الأ اذا جعل فوقه سقف وان شاء غسله  بالماء او وضعه فی موضع طاهر لا تصل الیه ید محدث ولا غبار ولا قذر تعظیماً لکلام  اﷲ عزوجل."

(شامی ج ۵ ص ۳۷۳کتاب الحظر والاباحة  فصل فی البیع)

اگر قرآن مجید قلمی ہو تو بہتر یہ ہے کہ اولاً پانی میں  دھو ڈالے اور کاغذات دفنادے او ر جس پانی میں  دھویا گیا ہے وہ پانی پی لیا جائے اس میں  ہر مرض اور دلی بیماری کی شفا ہے۔

مرقاۃ شرح مشکوٰۃ  ہے:

بل ینبغی أن یشرب ماء ہ لفانه دواء من کل داء وشفاء لما فی الصدور (ج۲ ص ۶۳۱)

دوسری صور ت یہ ہے کہ بوسیدہ قرآن مجید کے ساتھ کوئی وزنی شے باندھ دی جائے اور اس طرح اس کو بہتے ہوئے گہرے پانی میں  یا کنویں  کی تہ میں  احترام کے ساتھ پہنچا دیا جائے ولابأس بأن تلقی فی ماء جار."

(شامی ج ۱ص ۱۶۴ یطلق الدعاء علی ما یشتمل الثناء)

جہاں مذکورہ بالا صورتوں  پر عمل ممکن ہو اور یہ صورتیں  اطمینان بخش بھی ہوں  تو جلانے کی اجازت نہ ہوگی خصوصاً جب کہ جلانے کو بے حرمتی سمجھا جاتا ہو تو جلانے کی اجازت ہر گز نہیں  ہے۔

’’ فتاویٰ عالمگیری ‘‘ میں  ہے:

المصحف إذا صار خلقا وتعذرت القرأۃ عنه لا یحرق بالنار أشار الشیبانی الی ھذا فی السیر الکبیر وبه نأ خذ کذافی الذخیرہ."

(ج۵ ص۳۲۳ کتاب الکرھة الباب الخامس فی آداب المسجد والقبلة والمصحف وما کتب فیما شیٔ من القراٰن ح فی الخ الا تقان ج ۲ ص ۳۰۳)

یعنی مصحف اگر بوسیدہ ہوگیا کہ اس میں  پڑھا نہیں  جاسکتا تو اسے آگ میں  جلایا نہ جائے ا س حکم کی طرف امام محمد ؒ نے سیر کبیر میں  اشارہ فرمایا ہے اور ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں  ‘‘ہاں  جہاں  پر مذکورۃ الصدر دونوں  صورتیں  دشوار ہوں  یا اطمینان بخُش نہ ہوں  اور مقصدحاصل نہ ہوتا ہو یعنی دفنا نے اور پانی میں  ڈبونے کے بعد بھی بے حرمتی کا احتمال ہو اور جلائے بغیر چارہ نہ ہو تو جلا کر راکھ دفن کر دی جائے یا پانی میں  بہا دی جائے۔۔۔۔۔۔"

(فتاوی رحیمیہ، کتاب التفسیر والحدیث،  ج:3، ص:12، ط:دارالاشاعت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100083

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں