بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈی این اے کے ذریعہ ثبوت نسب


سوال

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس جدید مسئلہ کے متعلق کہ امریکا کی ایک انتہائی جدید ترین اور انتہائی مہنگی لیبارٹری ڈی این اے ٹیسٹ کرتی ہے اس کا جو اس وقت تک سب سے مہنگا اور جدید ترین ڈی این اے ٹیسٹ ہے اسکا نام The BIGY 700 ہے ۔لیبارٹری والوں کا مؤقف ہے کہ یہ ٹیسٹ صرف مرد ہی کروا سکتے ہیں کیونکہ مردوں ہی میں نسل بعد نسل اپنے مرد اجداد سے Y سیکس کروموزوم Y Sex Chromosome منتقل ہوا کرتا ہے ۔خواتین میں یہ والا Y chromosome ہوا ہی نہیں کرتا ۔سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ chromosome Y sex chromosome اندازا کوئی تین لاکھ سال قبل ایک مرد سے چلتا ہوا نسل بعد نسل ہر مرد کے اندر اپنے اپنے والد سے منتقل ہوتا چلا آ رہا ہے اور سائنس دانوں نے اسی بنیاد پر یہ BIGY paternal ancestry genealogy test بنایا ہے ۔جب کوئی مرد اپنی تھوک کا نمونہ sample انکو دیتا ہے تو وه اسمیں سے ڈی این اے الگ کرتے ہیں اور پھر مہینوں کی محنت کے بعد وه اس شخص کو پچھلے تین لاکھ سالوں تک اس کے اجداد کے dna tested y chromosome haplo groups بتاتے ہیں ۔یہ ٹیسٹ عرب میں اور یورپ امریکا وغیرہ میں بہت عام هو چکا بلکہ اب تو پاکستان ہندوستان میں بھی لوگ اسی ٹیسٹ کو اپنا شجرہ نسب اپنی تاریخ اپنے حقیقی اجداد کی تاریخ جاننے کے لیے استعمال کر رہے ہیں ۔اس ٹیسٹ کو ابراہیمی ۔عرب ۔قریشی ۔هاشمی ۔سید ۔حسنی ۔حسینی انساب کے ثبوت کے لیے بھی آج کل بہت زیادہ استعمال کیا جا رها ہے ۔کیا صدیوں پرانی تاریخ اور نسب کو پرکھنے کے لیے ڈی این اے کو بنیاد بنانا شرعی طور پر جائز ہے ۔نیز کیا یہ علم سائنسی طور پر درست هو سکتا ہے یعنی کیا ایسا ممکن بھی هو سکتا ہے یا نہیں ۔کیونکہ یہ سائنس دان جب چند ماہ بعد پہلا بنیادی ترین dna haplo group نتیجہ بتاتے ہیں تو وه بھی کم از کم پچیس ہزار سال قدیم ہوتا ہے جب کہ تاریخ کے مطابق تو پچیس ہزار سال پہلے کوئی انسان تھا ہی نہیں ۔اور پچیس ہزار سال پہلے جو نتیجہ بتاتے ہیں تو ایسا نہیں کہ وه پہلے انسان کا نتیجہ ہے بلکہ جو پہلا انسان ان کے مطابق تھا جو تمام موجودہ مردوں کا مشترکہ والد جد امجد تھا وه کم از کم تین لاکھ سال پہلے تھا ۔ 

جواب

سائنسی اعتبار سے ایسا ممکن ہے یا نہیں ،اس سے تو بحث نہیں ،کیونکہ ڈی این ٹیسٹ کے نتائج کا دار ومدار انسانی عمل اور مشین کی کارگردگی پر منحصر ہے اور دونوں خطا کے امکان سے خالی نہیں، اس لئے ڈی، این، اے ٹیسٹ  کو کسی امر کے حتمی ثبوت کے لیے معیار نہیں بنایا جاسکتا ، البتہ دور جاہلیت سے  لے کرآج تک  قیافہ شناسی ہو یا ڈی این اے ٹیسٹ،ثبوت نسب کے لیےان تمام طرق کااستعمال  نسب میں  حرام کاری کے شک اورطعنہ زنی کی بنیاد پر ہوا ہے،  شریعت میں نسب کے ثبوت کے متفقہ  طریقے:  فراش  (عورت جس مرد کے نکاح میں ہو ، اس سے بچہ کا نسب ثابت ہونا) ، شہادت (گواہی) اور اقرار ہیں، نیز احناف رحمہم اللہ کے نزدیک ”قیافہ“  کا اعتبار بھی نہیں ہے،   لہذا ”ثبوت نسب“ کے سلسلے میں انہی شرعی طریقوں کا اعتبار ہے۔البتہ  جن کے دامن صاف ہیں اور ان کےنسب اور خاندان حرام کاری   اور اس کے شبہ  سے محفوظ ہیں ،توان کا نسب نسل در نسل محفوظ ہے ان کو ڈی این اے ٹیسٹ وغیرہ کے ذریعہ مزید اپنے نسب کی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔

عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"وقال الكوفيون والثوري وأبو حنيفة وأصحابه: الحكم بها باطل لأنها حدس، ولا يجوز ذلك في الشريعة وليس في حديث لباب حجة في إثبات الحكم بها لأن أسامة قد كان ثبت نسبة قبل ذلك ولم يحتج الشارع في إثبات ذلك إلى قول أحد، وإنما تعجب من إصابة مجزز كما يتعجب من ظن الرجل الذي يصيب ظنه حقيقة الشيء الذي ظنه، ولا يجب الحكم بذلك. وترك رسول الله صلى الله عليه وسلم، الإنكار عليه لأنه لم يتعاط بذلك إثبات ما لم يكن ثابتا وقد قال تعالى: {ولا تقف ما ليس لك به علم} (الإسراء: 63)."

(باب القائف،ج23،ص264،ط؛دار احیاء التراث العربی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102148

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں