بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسٹمر کو دوسری دکان سے موبائل دلوانا اور کمیشن وصول کرنا


سوال

میرا موبائل اور اسیسریز کا کاروبار ہے، مارکیٹ میں دکانداروں کے ساتھ کچھ معاملات ہوتے ہیں، ان کے بارے میں کچھ شکوک ہیں کہ آیا وہ از روئے شریعت درست ہیں یا نہیں، تو ان کے بارے میں پوچھنا تھا، سوال یہ ہے کہ میرے پاس کوئی کسٹمر آیا موبائل خریدنے اور وہ موبائل میرے پاس موجود نہیں تو کسٹمر کو میں نے کہا کہ میں کسی اور دکان سے آپ کو لے کر دیتا ہوں،تو کسی دکان والے کے پاس گیا اور موبائل کا ریٹ معلوم کیا، مثلاً بیس ہزار کا، وہ میں نے کسٹمر کو اکیس ہزار کا دیا۔

دوسری صورت یہ ہے کہ میں کسٹمر کو دوسرے دکان والے کے پاس لے گیا اور دکان والے کو اشارہ کر دیا تو وہ موبائل اس نے کسٹمر کو بیچا، پھر مجھے وہ کمیشن دے گا پانچ سو یا پھر ایک ہزار، تو کیا یہ دونوں صورتیں جائز ہیں یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر گاہک آپ کے پاس آئے اور آپ کے پاس اس کا مطلوبہ موبائل موجود نہ ہو اور آپ اُس کو کسی دوسرے دکان والے سے خرید کر آگے زائد قیمت پر فروخت کر دیتے ہیں، تو اس میں کوئی قباحت نہیں، ایسا کرنا شرعاً درست ہے، لیکن اس صورت میں یہ ضروری ہے کہ وہ موبائل باقاعدہ آپ خود یا آپ کا وکیل (خواہ وہ ملازم ہو یا کوئی اور) خریدے، اس پر قبضہ کرے، پھر گاہک کو فروخت کرے، اگر ایسا نہ کیا تو یہ معاملہ درست نہیں ہو گا۔

اسی طرح دوسری صورت میں اگر آپ گاہک کو کسی دوسری دکا ن پر لے کر جاتے ہیں اور وہاں سے گاہک کو موبائل دلواتے ہیں اور دوکاندار سے پہلے سے طے شدہ  اپنا کمیشن لیتے ہیں، اگر اس صورت میں آپ دونوں (آپ اور دوسرے دکان دار) کے درمیان کسٹمر لانے کے عوض کمیشن (اجرت) طے شدہ ہوتا ہے، مثلاً پانچ سو یا ایک ہزار،  تو ایسی صورت میں آپ کا کمیشن وُصول کرنا جائز ہو گا، اور اگر کمیشن پہلے سے متعین نہ ہو یا آپ موبائل دلوانے میں اپنا کوئی کردار ادا نہیں کرتے، مثلاً گاہک کو صرف دوسری دکان کا پتہ بتا دیا، وہ خود چلا گیا تو ایسی صورت میں آپ کے لیے کمیشن لینا جائز نہیں ہو گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجاً ينسج له ثياباً في كل سنة."

(كتاب الإجارة،مطلب في استئجار الماء مع القناة ...،6/ 63،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403102272

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں