بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کرنٹ اور ڈنڈوں سے قتل کرنے پر صلح کرنے کا حکم


سوال

میرے سالوں کا دو بندوں کے ساتھ مالی لین دین کا معاملہ تھا، حالات کچھ خراب ہوئے تو ان دو بندوں نے مزید چار بندوں کے ساتھ مل کر میرے سالے کو کرنٹ دے کر اور ڈنڈوں سے مار مار کر قتل کر دیا۔

اب وہ چھ افراد شریعت کے مطابق تاوان بھرنے کے لیے تیار ہیں، آپ حضرات سے سوال یہ ہے کہ صورتِ مسئولہ میں ان چھ افراد کے ذمہ جو تاوان لازم ہے، اس کی مکمل وضاحت کر لیجیے کہ وہ چھ افراد اگر 68 لاکھ روپے دے کر باہمی رضامندی سے ہم معاملہ کو ختم کر دیں، یہ ٹھیک ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جن چھ افراد نے سائل کے سالہ کو کرنٹ دے کر اور ڈنڈے مار کر شہید کیا ہے تو اولاً ان کو اپنے اس اقدام سے سچی توبہ کرنا چاہیے، دیت کی ادائیگی بھی لازم ہو گی، دیت اگر  سونے کے اعتبار سے وصول کی جائے،   تو اس کی مقدار ایک ہزار (1000) دینار یعنی 375 تولہ سونا یعنی جدید پیمانے کے اعتبار  سے 4 کلو 374 گرام سونا یا اس کی قیمت بنتی ہے، اور اگر چاندی کے اعتبار سے وصول کی جائے تو اس کی مقدار  دس ہزار (10000) درہم یعنی 2625 تولہ چاندی یعنی جدید پیمانے کے اعتبار سے 30 کلو 618 گرام چاندی یا اس کی قیمت بنتی ہے۔

لیکن اگر دیت کے بدلہ قاتلین 68 لاکھ روپے دے کر مقتول کے ورثاء سے باہمی رضامندی سے صلح کر لیتے ہیں تو یہ بھی درست ہوگا۔

نیز قاتلین پر کفارہ بھی لازم ہے  جوکہ  دوماہ مسلسل روزے رکھنا ہے۔

تبيين الحقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (وشبهه، وهو أن يتعمد ضربه بغير ما ذكر، الإثم والكفارة ودية مغلظة على العاقلة لا القود) أي موجب القتل ‌شبه ‌العمد الإثم والكفارة على القاتل والدية المغلظة على العاقلة ولا يوجب القصاص."

(كتاب الجنايات،جلد:6،صفحہ:100،طبع:المطبعة الكبرى الأميرية،بولاق،القاهرة)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وموجبه على القولين الإثم والكفارة، وكفارته تحرير رقبة مؤمنة، فإن لم يجد فصيام شهرين متتابعين، ودية مغلظة على العاقلة كذا في الكافي."

(کتاب الجنایات، الباب الاول، جلد:6، صفحہ: 3، طبع: دار الفکر)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"(الباب السادس في الصلح والعفو والشهادة فيه) للأب أن يصالح فيما دون النفس واختلفت الروايات في الصلح عن النفس كذا في فتاوى قاضي خان.

وإذا اصطلح القاتل، وأولياء القتيل على مال سقط القصاص، ووجب المال قليلا كان، أو كثيرا، وإن لم يذكروا حالا، ولا مؤجلا فهو حال كذا في الهداية.

ولو كان القتل خطأ فقال: صالحتك على ألف دينار، أو على عشرة آلاف درهم، ولم يسم لذلك أجلا، فإن كان ذلك قبل قضاء القاضي وقبل تراضيهما على نوع من أنواع الدية فإنه يكون مؤجلا كذا في الظهيرية."

(کتاب الجنایات، الباب السادس، جلد:6، صفحہ: 20، طبع: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100680

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں