بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 جُمادى الأولى 1446ھ 10 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کرنسی کی لین دین ادھار کرنا


سوال

ایک شخص کی کاروباری نوعیت کچھ اس طرح ہے کہ وہ ڈالرکو پاکستانی روپے میں بطور ادھار بیچتا ہے،اور ادھار کی وجہ سے زیادہ قیمت پر دیتا ہے۔اور اگر مشتری میعاد متعین پر ادھار ادا نہ کرے تو بائع میعاد بڑھانے کے ساتھ قیمت بھی بڑھادیتا ہے۔تو شرعا اس کاروبار کا کیا حکم ہے؟

مذکورہ صورت میں اس شخص کے کاروبار کے پیسے اگر مدرسہ یا مسجد کی تعمیر میں لگائے جائیں اور مدرسہ ومسجد کی تعمیر میں دوسرے لوگوں کے پیسے بھی لگے ہوئے ہوں تو اس کا کیا حکم ہے؟

نیز اس آمدنی سے اساتذہ کی تنخواہ دینا اور اسی طرح طلبہ کا اس مذکورہ شخص کے گھر سے آیا ہوا سالن کھانا اور اس کی دعوت قبول کرنا اور دیگر تقریبات میں شریک ہونا،اس کا کیا حکم ہے؟

اگر مذکورہ کاروبار کا حکم سود کا ہے اور یہ شخص صدق دل سے توبہ کرنا چاہتا ہے، لیکن یہ کاروبار وہ بہت زمانہ سے کرتا ہے ان کو اپنے راس المال کا بھی پتہ نہیں ہے،اب اس کی صفائی کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  کرنسی خواہ کسی بھی ملک کی ہو اسے فروخت  کرتے ہوئے ایک ہی مجلس میں عاقدین کی جانب سے تبادلہ کرنا اور قبضہ کرنا شرعًا ضروری ہوتا ہے،  اور کسی ایک جانب سے ادھار سود  ( ربا نسیئہ ) کی وجہ سے حرام  ہے، پس صورتِ مسئولہ میں ڈالر روپے کے عوض ادھار فروخت کرنا شرعًا حرام ہے۔اور بعد میں میعاد بڑھانے کی صورت میں قیمت میں اضافہ کرنا مزید ایک ناجائز امر کا ارتکاب ہے۔

سود اور حرام آمدنی کی رقم مسجد ومدرسہ کی تعمیرات پر خرچ کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔

اسی طرح حرام آمدنی سے اساتذہ کی تنخواہ دینایا اس کے گھر  خالص حرام آمدنی کا کھانا کھانا /دعوت قبول کرنا  وغیرہ شرعا جائز نہیں ہے۔البتہ اگر  آمدنی خالص حرام ہے، لیکن وہ اپنی اس حرام آمدنی سے کھانا کھلانے کے بجائے   کسی دوسرے شخص سے حلال رقم قرض لے کر  کھانے  کا انتظام کرے، تو ایسے صورت میں بھی   کھانا کھانا جائز ہے۔

مذکورہ شخص کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ اپنے اس سودی کاروبار کوچھوڑ کر صدق دل سے توبہ کرے اور   اندازہ لگاکر اپنی تمام سود ی آمدنی کو بلانیت ثواب کسی مستحق زکاۃشخص کو صدقہ کردے ۔ باقی اصل سرمایہ کی رقم اندازہ لگاکر کسی جائز کاروبار میں استعمال کرسکتا ہے۔اسی طرح اگر وہ از خود سود کے حرام مال سے جان چھڑانے کے لیے ثواب کی نیت کیے بغیر سود کا پیسہ مدرسہ کے مستحقِ زکاۃ طلبہ پر بطورِ صدقہ صرف کرنے کے لیے دے تو اس صورت میں بھی وہ پیسہ اس سے لے کر صرف  مستحقِ زکات طلبہ کو دینا جائز ہوگا، لیکن مدرسہ کی کسی دوسری مد (مثلاً تعمیرات یا اساتذہ کی تن خواہوں وغیرہ ) میں اس رقم کا لگانا جائز نہیں ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

'' (هو) لغةً: الزيادة. وشرعاً: (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنساً بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة، (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزناً، (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق)، وهو شرط بقائه صحيحاً على الصحيح، (إن اتحد جنساً وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) ؛ لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء، (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافاً أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح).''

(باب الصرف،ج5،ص257،ط؛سعید)

المحيط البرهاني میں ہے:

"وفي «عيون المسائل» : رجل أهدى إلى إنسان أو أضافه إن كان غالب ماله من حرام لا ينبغي أن يقبل ويأكل من طعامه ما لم يخبر أن ذلك المال حلال استقرضه أو ورثه، وإن كان غالب ماله من حلال فلا بأس بأن يقبل ما لم يتبين له أن ذلك من الحرام؛ وهذا لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام وتخلو عن كثيره، فيعتبر الغالب ويبنى الحكم عليه".

(الفصل السابع عشر فی الھدایا والضیافات، ج5،ص367،ط: دارالکتب العلمیہ)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لايقبل الهدية، ولايأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع".

( الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات،ج5،ص342، ط: رشیدیہ)

وفیہ أیضاً:

"آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولايأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط".

 ( الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات،ج5،ص343، ط: رشیدیہ)

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101064

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں