پوچھنایہ تھا کہ پانچ روپیہ والے سکے آج کل لوگ 1000 روپے کے سکے 1500 میں لے رہے ہیں، جو کے مجھے سود لگ رہے ہیں، لیکن جو کر رہے ہیں کس مقصد کے لئے کررہے ہیں، پتہ نہیں، آپ اس بات پر روشنی ڈالیں ۔
واضح رہے کہ کرنسی کی تجارت شرعا بیع صرف ہے ، بیع صرف کا حکم یہ ہے کہ اگرایک ہی جنس کی کرنسی ہوتو اس میں دونوں طرف سے برابری اور جدا ہونے سے پہلے کرنسی پر قبضہ کرنا ضروری ہے ۔
لہذا صورت مسئولہ میں جو لوگ 1000روپے مالیت تک کے5 روپے کےسکوں کو 1500 روپے میں لے رہے ہیں یہ شرعاً سود کے حکم ہیں، لہذا اس طرح کی خرید وفروخت کرنا جائز نہیں ہے ۔
فتاوی شامی میں ہے :
"(هو) لغة الزيادة. وشرعا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة) لما مر في الربا".
(کتاب البیوع ، باب الصرف ج: 5 ص: 257 / 258 ط: سعید)
فتح القدیر میں ہے :
"قال (فإن باع فضة بفضة أو ذهبا بذهب لا يجوز إلا مثلا بمثل وإن اختلفا في الجودة والصياغة) لقوله - عليه الصلاة والسلام - "الذهب بالذهب مثلا بمثل وزنا بوزن يدا بيد والفضل ربا" الحديث. وقال - عليه الصلاة والسلام - "جيدها ورديئها سواء" وقد ذكرناه في البيوع".
(کتاب البیوع ، کتاب الصرف ج: 7 ص: 134 ط: دار الفکر)
دررالحکام میں ہے:
"(فإن تجانسا) أي الثمنان بأن يكونا ذهبين أو فضتين (لزم التساوي والتقابض) لما مر في الربا".
(کتاب البیوع ، باب الصرف ج: 2 ص: 203 ط: دار إحياء الكتب العربية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503102070
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن