ہم جب بحرین سے پیسے ایکسچینج کرتے ہیں تو اس کا ریٹ 446 روپے ہے اور انٹرنیشنل ایکسچینج ریٹ 463 روپے ہیں اور یہاں سے جب ہم پیسے بھیجتے ہیں تو اس کا ریٹ 457 روپے ہے ، اب یہاں اگر میں کسی دوست کے ساتھ ایکسچینج کروں گا تو کون سا ریٹ لگانا مناسب ہے؟ عام ریٹ یا انٹرنیشنل ایکسچینج؟ براہ مہربانی راہِ نمائی فرمائیں۔
واضح رہے کہ کرنسی کی کرنسی کے بدلے خرید وفروخت کو شریعت کی اصطلاح میں "بیع صرف" کہا جاتا ہے، اور بیع صرف چند شرائط کے ساتھ جائز ہے۔
1۔عقد کی مجلس میں عوضین(ثمن اور مبیع) پر قبضہ کرنا ضروری ہے، ادھار اور خیارِ شرط کے ساتھ یہ معاملہ جائز نہیں ہے، بلکہ فاسد ہے۔
2۔اگر عوضین(ثمن اور مبیع) ایک جنس کے ہوں، مثلاً پاکستانی روپے کے بدلے پاکستانی روپے ،تو ایسی صورت میں عقد کی مجلس میں عوضین(ثمن اور مبیع) پر قبضہ کرنا بھی ضروری ہےاور عوضین کا مقدار میں برابر ہونا بھی ضروری ہے، ورنہ زیادتی کی صورت میں سود کی وجہ سے معاملہ ناجائز اور حرام ہوگا۔
3۔اگر عوضین(ثمن اور مبیع) ایک جنس کے نہ ہوں،مثلاً ڈالر کے بدلے میں پاکستانی روپے،تو ایسی صورت میں عوضین میں کمی وبیشی تو جائز ہے، لیکن عقد کی مجلس میں عوضین پر قبضہ کرنا ضروری ہے۔
صورتِ مسئولہ میں سائل جب بحرین سے پیسے ایکسینج کرتا ہے تو اس کا عام ریٹ 446 روپے ہے اور انٹرنیشنل ریٹ 463 روپے ہے تو اس صورت میں سائل اور اس کا دوست آپس میں باہمی رضا مندی سے جو چاہیں ریٹ طے کرسکتے ہیں بشرطیکہ جانبین سے کرنسی مختلف الجنس ہوں اور نقد تبادلہ ہو۔
الدر مع الرد میں ہے:
"باب الصرف...(هو) لغةً: الزيادة. وشرعًا: (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسًا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل)أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة) لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء...(ويفسد) الصرف (بخيار الشرط والأجل) لإخلالهما بالقبض (ويصح مع إسقاطهما في المجلس) لزوال المانع وصح خيار رؤية وعيب في مصوغ لا نقد.
وفي الرد: (قوله: أي ما خلق للثمنية) ذكر نحوه في البحر. ثم قال: وإنما فسرناه به ليدخل فيه بيع المصوغ بالمصوغ أو بالنقد، فإن المصوغ بسبب ما اتصل به من الصنعة لم يبق ثمنا صريحا، ولهذا يتعين في العقد ومع ذلك بيعه صرف اه."
(کتاب البیوع، باب الصرف، 5 /257 إلي 259 ، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307100365
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن