بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کرنسی کی کرنسی کے مقابلہ میں بیع کی صورت میں اکاؤنٹ میں پیسے ڈلوانے سے بیع کا حکم


سوال

زید، عمر بکر،تین آدمی ہیں۔ زید کو ڈالر چاہیے يعنی خريدنا چاهتا هے تو زید عمر سے کہتا ہےکه مجھے ڈالر دلوا دو، كيوں   کہ عمر کا دوست ڈالر بیچتا ہے۔ اور آپس میں ڈالر کے لین دین کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ زید پہلے عمر کے اکاؤنٹ میں پیسے ڈلواتا ہے، پھر عمر اپنامنافع رکھنے کے بعد بکر کے اکاؤنٹ میں پیسے ٹرانسفر کروادیتا ہے۔ پھر بکر مطلوبہ ڈالر زید کے اکاؤنٹ میں ڈلوادیتا ہے۔

تو سوال یہ ہے کہ ڈالر كي اس طرح بیع جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز نہیں ہے تو وجہ کیاہے؟ اور اگر جواز کی کوئی صورت ہو تو وہ بھی بیان فرمادیں۔

یہ معاملات فون پر طے ہوتے ہیں، ہاتھ در ہاتھ نہیں ہوتے۔

جواب

اگر کوئی شخص ایک ملک کی کرنسی کا تبادلہ دوسرے ملک کی کرنسی سے کرتا ہے تو ایسی صورت میں معاملہ کا ہاتھ در ہاتھ ہونا ضروری ہے، یعنی ایک ہی مجلس میں دونوں کرنسیوں پر قبضہ کرنا ضروری ہو گا، اگر مجلسِ عقد میں دونوں کرنسیوں پر قبضہ نہیں کیا گیا تو یہ معاملہ درست نہ ہو گا اور اس عقد کے نتیجے میں ہونے والا منافع بھی حلال نہیں ہو گا۔

اب سوال میں معاملہ کی جو صورت ذکر کی گئی ہے، اس صورت میں در حقیقت دو معاملے میں:

پہلا معاملہ:

زید اور عمر کے درمیان، اس کی تفصیل یہ ہے کہ زید عمر کو پاکستانی کرنسی اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرتا ہے اور اس کے عوض ڈالر کا مطالبہ کرتا ہے، پھر اس کا جو طریقہ کار سوال میں درج ہے اس طریقہ کار کے مطابق ایک مجلس میں جانبین سے کرنسیوں پر قبضہ نہیں پایا جاتا۔

دوسرا معاملہ:

عمر اور بکر کے درمیان، اس کی تفصیل یہ ہے کہ عمر بکر کے اکاؤنٹ میں پاکستانی کرنسی ٹرانسفر کرتا ہے اور اس سے ڈالر کا مطالبہ کرتا ہے، اس کے طریقہ کار میں بھی ایک مجلس میں دونوں کرنسیوں پر قبضہ نہیں پایا جاتا۔

اب اگر منافع رکھنے کی غرض سے ان دونوں معاملوں کی فقہی تکییف خرید و فروخت کی مانی جائے تو یہ دونوں معاملے  شرعاً درست نہیں،کیوں کہ یہ بیعِ صَرف کا معاملے ہیں اور اس معاملہ میں جانبین سے ہر ایک کرنسی پر مجلسِ عقد میں قبضہ  کرنا ضروری ہے، حالاں کہ ان دونوں معاملوں میں کسی ایک معاملہ میں بھی ایک مجلس میں دونوں کرنسیوں پر قبضہ نہیں پایا گیا، لہذا نہ ہی عمر کے لیے منافع رکھنا حلال ہو گا اور نہ ہی بکر کے لیے۔

جائز صورت:

اگر مجبوری میں اس قسم کا معاملہ کرنا ہی ہو، اور ہاتھ در ہاتھ معاملہ کرنا دشوار ہو، تو اس کو قرض مان لیا جائے، گویا زید نے اولاً عمر کے اکاؤنٹ میں جو رقم ٹرانسفر کی ہے وہ بطورِ قرض کے ٹرانسفر کی ہے، اس کے بعد عمر نے بکر کے اکاؤنٹ میں جو رقم ٹرانسفر کی ہے وہ بھی بطورِ قرض کے کی ہے، پھر بکر عمر کا قرضہ اتارنے کے لیے کرنسی بدل کر ڈالر کی شکل میں کرنسی زید کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیتا ہے، اس طرح کرنا درست ہو گا، لیکن اس صورت میں عمر اور بکر دونوں پر "الدیون تقضی بامثالھا" کی بنیاد پر پوری پوری رقم واپس کرنا ضروری ہو گا، خرید و فروخت کے معاملہ کی طرح منافع رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

اور اگر اس قسم کے معاملات سے اصل مقصود ہی منافع کمانا ہو تو اس صورت میں ضروری ہو گا کہ ایک مجلس کے اندر دونوں کرنسیوں پر قبضہ کرنے کی ترتیب بنائی جائے، اس کے بغیر یہ معاملہ درست نہیں ہو گا، دونوں کرنسیوں پر قبضہ کرنے کی ایک جائز صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عمر اولاً خود یا اپنے کسی ملازم یا وکیل (ایجنٹ) کے ذریعہ اپنی ذاتی رقم استعمال کر کے بکر سے ڈالر خرید لے، جس میں ایک مجلس میں دونوں کرنسیوں پر قبضہ ہو، پھر اس معاملہ کو مکمل کر لینے کے بعد عمر خود یا اس کا ملازم یا وکیل خرید و فروخت کا یہ معاملہ زید کے ساتھ نقد کر لے، اس میں بھی ایک مجلس میں دونوں کرنسیوں پر قبضہ کا التزام کیا جائے، ایسا کرنے سے معاملہ بھی شرعاً درست ہو جائے گا اور منافع رکھنا بھی درست ہو گا۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وإن وجد القدر والجنس حرم الفضل والنساء وإن وجد أحدهما وعدم الآخر حل الفضل وحرم النساء وإن ‌عدما ‌حل الفضل والنساء كذا في الكافي."

(كتاب البيوع، الباب التاسع، الفصل السادس في تفسير الربا، ج:3، ص:117، ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101640

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں