بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 ذو القعدة 1445ھ 19 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کرنسی کی حیثیت اور اس کی خرید و فروخت


سوال

  1. کرنسی کی خرید و فروخت کے بارے میں کیا حکم ہے ؟فارکس کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ اس میں قبضہ نہیں ملتا، لیکن جو کرنسی کی خرید و فروخت ایسی ہو کہ اس میں قبضہ ملتا ہو اس  کے بارے میں کیا حکم ہے؟
  2. ایک شخص کرنسی خریدتا ہے ،صرافوں سے مثلًا  ڈالر  لیے اور پھر انتظار کرتا ہے کہ اس کی قیمت بڑھ جائے تو اس کو مارکیٹ میں ییچ دے، کیا اس طرح کرنا جائز ہے  اور  جو نفع ملا، کیا یہ حلال ہے؟  اس میں نقصان بھی ہو جاتا ہے۔
  3. ایک شخص بیرونی کرنسی کو اس لیے خریدتا ہے کہ اس کو اپنے مال کو محفوظ کرنا ہے؛ اس لیے کہ پاکستانی روپیہ کی قیمت گر جاتی ہے۔اور جب اس کو ضرورت پڑے گی وہ ڈالر کو فروخت کر کے اپنی ضرورت پوری کرلے گا یا کوئی کاروبار کرلے گا  یا اس کو  یہ ڈر ہے کہ اس سے یہ رقم خرچ نہ ہو جائے، اس وجہ سے وہ کرنسی تبدیل کر لیتا ہے ، اس بارے میں کیا حکم ہے؟
  4. لوگ بینک میں ڈالر اکاؤنٹ کھلوا کر اس میں پیسے رکھ لیتے ہیں وہ پیسے ڈالر کی شکل میں ہوتے ہیں، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ بینک اس پیسے پر منافع بھی دیتا ہے، اس بارے میں کیا حکم ہے؟ اگر اسلامی بینک میں ڈالر اکاؤنٹ ہو اور اس پر بینک منافع دے اور منافع متعین نہ ہو،  فیصد کے اعتبار سے متعین ہو تو کیا حکم ہے؟

جواب

  1.  واضح رہے کہ کسی بھی کرنسی کو خرید کر رکھنا اور پھر اس کے ریٹ مہنگے ہوجانے کے بعد اسے بیچ کر نفع کمانا حلال ہے، البتہ کرنسی کے بدلے کرنسی کی جو بیع  ہوتی ہے ، اس کی حیثیت بیع صرف کی ہے؛  اس لیے اس طرح کی بیع میں ادھار جائز نہیں ہے،  بلکہ  ضروری ہے کہ سودا نقد کیا جائے اور مجلسِ عقد  میں  ہاتھ کے  ہاتھ   ہی جانبین  سے عوضین پر قبضہ بھی ہوجائے ، ورنہ بیع فاسد ہوجائے گی؛ لہٰذا پہلی مرتبہ جب کسی ملک کی کرنسی خریدی گئی اگر اس وقت سودا نقد ہوا، پھر وہ کرنسی اپنے پاس رکھی رہی، اور کچھ عرصے بعد اس کی قیمت بڑھ گئی تو پھر دوسرا سودا بھی نقد کرکے اسے فروخت کیا گیا تو یہ جائز ہے۔  اور   اگر ایک ہی ملک کی کرنسی کا اسی ملک کی کرنسی کے عوض معاملہ کیا جائے تو سودا نقد ہونے کے ساتھ ساتھ جانبین سے برابری بھی شرط ہوگی، ورنہ سود ہوجائے گا؛ لہذا ایسے تمام سودے ناجائز  ہوں گے جن میں کرنسی کی خریدوفروخت ادھار ہوتی ہے ،  یا نقد ہوتی ہے ، مگر عقد کے دونوں فریق  یا کوئی ایک فریق اپنے حق پر قبضہ نہیں کرتا ۔الحاصل تقابض نہ پائےجانے کی وجہ سے ایسے سودے فاسد ہوں گے  اور نفع حلال نہ ہوگا۔

  2. جائز ہے۔
  3. جائز ہے۔
  4. مروجہ  اسلامی بینک میں ڈالر اکاؤنٹ ہو یا غیر اسلامی میں، اگر اس پر بینک منافع دے تو اکاؤنٹ کھولنا ناجائز ہے۔

فتاویٰ شامی میں  ہے:

'' (هو) لغةً: الزيادة. وشرعاً: (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنساً بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة، (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزناً، (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق)، وهو شرط بقائه صحيحاً على الصحيح، (إن اتحد جنساً وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) ؛ لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء، (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافاً أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح)''۔  

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 257)، باب الصرف)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200926

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں