بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کرنسی نوٹ اور اس کے ذریعے سونا چاندی ادھار خریدنے کا شرعی حکم


سوال

پچھلے سال بندہ نے دار الافتاء بنوری ٹاؤن سے بیع صرف کے حوالہ سے یہ استفتاء کیا تھا  که بيع الذهب بالأوراق النقد یہ (جو کہ فی زمانہ  رائج  ہے) یہ بیع  صرف ہے یا نہیں ؟ اس بنا پر سونے کی خرید وفروخت  کرنسی نوٹ کے بدلہ میں ادھار  پر  / قسطوں پر جائز ہے کہ نہیں؟  دار الافتاء جامعہ نے اس کے جواب میں  مفتی عبد السلام رحمہ اللہ (سابق مفتی) کے حوالہ سے ان کے عدم جواز کا قول نقل فرمایا تھا کہ ہمارے  نزدیک بيع الذهب بالاوراق النقد یہ یہ بیع صرف ہے ، جس کا حکم تقابض البدلين في المجلس ہے ، لہذا ادھار پر یا قسطوں یر یہ بیع جائز نہیں ۔

پھر مستفتی  کو اس جواب / فتوی کے متعلق کچھ علمی سوالات ہوئے جو جامعہ کے مفتی سے زبانی پوچھے تو  انہوں نے تحریری طور پر جمع کرنے کا مشورہ دیا تاکہ اس کی مکمل تحقیق کی جاسکے  - وبه رجونا-

وہ سوالات مندرجہ ذیل ہیں :

1 :  قال في رد المحتار على الدر المختار :

"الصرف... (هو) ...شرعا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ."  (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 257)"

 2:  الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 180):

"تنبيه:  سئل الحانوتي عن بيع الذهب بالفلوس نسيئة. فأجاب: بأنه يجوز إذا قبض أحد البدلين لما في البزازية لو اشترى مائة فلس بدرهم يكفي التقابض من أحد الجانبين...  قال: فلا يغتر بما في فتاوى قارئ الهداية من أنه لا يجوز بيع الفلوس إلى أجل بذهب أو فضة ."

3: البحر الرائق شرح كنز الدقائق (6 / 211):

"وقيد بالذهب والفضة لأنه لو باع فضة بفلوس أو ذهب بفلوس فإنه يشترط قبض أحد البدلين قبل الافتراق لا قبضهما."

4: بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5 / 237):

"ومنها ما يشترط فيه القبض من أحد الجانبين كبيع الدراهم بالفلوس  ... وقال قبله:  ولو لم يوجد القبض إلا من أحد الجانبين دون الآخر فافترقا مضى العقد على الصحة."

ان تمام عبارات میں بیع الفلوس بالذهب / بالدراهم نساء کے جواز کی تصریح ہے ، خاص کر رد المحتار میں بیع صرف میں " ثمن " سے مراد خلقی کی صراحت ہے اور مفہوم مخالف عبارات فقہاء میں معتبر ہے، لہذا مذکورہ مسئلہ بیع صرف کے تحت نہیں آتا۔

نیز  کرنسی نوٹ سونے کے قائم مقام ہے اس بنا پر   کہ ان نوٹوں کی پشت پر سونا ہے جس پر نوٹ  کی یہ عبارت دال ہے : " حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا  کر ے گا" ، معتبر تحقیقات سے معلوم ہوا  کہ اب ان کے پشت  پر سونا نہیں، لہذا مبنی حکم میں تبدیلی سے حکم میں تبدیلی آنی چاہیے۔

جواب

واضح رہے کہ  سونے اور چاندی کے ”زر“ (ثمن)  کی حیثیت سے استعمال ہونے سے پہلے  دنیا میں ”بضاعتی یا اجناسی زر“ کا نظام رائج تھا،  اس سسٹم کے تحت  ہر خطے کے لوگوں نے اپنے اپنے علاقے میں مقبول اورقیمتی  شمار ہونے والی اشیاء کو زر کا  درجہ دیا  ہوا تھا،   پھر  سکّے کے ذریعے خرید وفروخت کا رواج شروع ہوا، اس کے بعد   عام لوگ سونے چاندی کے سکّے صرافوں کے پاس امانت کے طور پر رکھ کر ان سے وثیقے اور اعتماد کے طو ر پر  رسید وصول کرلیتے تھے، پھر اس کے بعد لوگوں نے انہیں رسیدوں پر خرید وفروخت کا کاروبار شروع کردیا، اس کے بعد یہی رسیدیں نوٹوں  کی شکل اختیار کرگئیں، پھر جب نوٹوں کو قانونی طور پر کرنسی کی حیثیت دی گئی تو اس وقت ان نوٹوں کے پیچھے سو فیصد سونا ہوتا تھا، پھر سونے کی شرح بھی کم ہوتی گئی ، یہاں تک کہ کم ہوتے ہوتے سونے کی شرح بالکل ختم ہی ہوگئی ، لہذا اب نوٹوں کے پیچھے کوئی سونا نہیں اور  نہ ہی نوٹ سونا چاندی کی رسید ہے،  بلکہ نوٹوں کی اپنی مستقل حیثیت ہونے کی وجہ سے یہ  باقاعدہ سونے  چاندی کی طرح ثمن   ہے، سونا اور چاندی خلقی  اور کرنسی نوٹ اعتباری اور قانونی ثمن ہیں۔

 اسلام کے ابتدائی دور میں مالیاتی لین دین اگر چہ  سونے چاندی کے سکوں کے ذریعے ہی ہوتا تھا، اور سونے چاندی کے زر ہونے کی صلاحیت مسلمہ حقیقت ہے،  لیکن شریعت نے زر ہونے کے لیے  سونے چاندی کے سکوں کی شرط نہیں لگائی،  مشہور مورخ احمد بن یحییٰ بلاذری نے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں اونٹوں کی کھال سے درہم بنانے کا ارادہ کیا تھا مگر اس خدشے سے یہ ارادہ ترک کر دیا کہ اس طرح اونٹ ہی ختم ہو جائیں گے۔ چنانچہ بلاذری نے ان کا یہ قول نقل کیا ہے:

"ولقد كان عُمَر بْن الخطاب قَالَ: هممت أن أجعل الدراهم من جلود الإبل فقيل له إذا لا بعير فأمسك."

(فتوح البلدان (1 / 452)، أمر النقود، ط: دار ومكتبة الهلال- بيروت)

ترجمہ :

”میں نے اونٹوں کے چمڑوں  سے درہم بنانے کا ارادہ کیا ہے،  تو ان سے کہا گیا: اس سے  تو اونٹ ختم ہو جائیں گے ، اس پر انہوں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔“

نیز امام مالک رحمہ اللہ منقول ہے :

"لو أن الناس أجازوا بينهم الجلود حتى تكون لها سكة وعين لكرهتها أن تباع بالذهب والورق نظرة."

(المدونة (3 / 5، التاخير في صرف الفلوس، ط:دار الكتب العلمية)

ترجمه: ”اگر لوگ اپنے درمیان چمڑوں کے ذریعے خرید و فروخت کو رائج کر دیں ، یہاں تک کہ وہ چمڑے ثمن اور سکہ کی حیثیت اختیار کرجائے تو میں سونے چاندی کے بدلے ان چمڑوں کو ادھار فروخت کرنا پسند نہیں کروں گا ۔”

لہذا  ہمارے زمانہ میں جب کرنسی نوٹ  کو قانونی طور پر کرنسی تسلیم کرلیا گیا اور اس کے ذریعے  لین دین کا رواج ہوگیا اوراب   اس کی سونے اور چاندی سے وابستگی ختم ہوگئی ہے  اور  ان کے  پیچھے کوئی سونا نہیں  ہے تو یہ کرنسی نوٹ  سونے چاندی کی رسید  نہیں ہیں ، بلکہ ان کی اپنی مستقل حیثیت ہے، اور یہ خود  مال  اور ثمن ہے ، جو خرید و فروخت میں سونے چاندی کی طرح ہیں ، تجارتی لین دین  بالخصوص بیع سلم، مضاربت  ، شرکت   اور اسی طرح  زکوۃ کی ادائیگی وغیرہ میں ان کا حکم وہی ہے جو سونے اور چاندی کا ہے۔

چنانچہ آج کل نوٹوں کی حیثیت وہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سونے چاندی کی تھی ، لہذا جس طرح سونے کی سونے کے بدلے، یا چاندی کی چاندی کے بدلے میں کمی بیشی کے ساتھ خرید وفروخت کرنا سود ہونے کی وجہ سے نا جائز ہے، اور ادھار میں بھی سودا کرنا حرام ہے، اسی طرح نوٹوں کا تبادلہ بھی آپس میں کمی زیادتی اور ادھار میں کرنا سود ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔ 

باقی کرنسی نوٹوں کو مطلقاً   سابقہ زمانہ کے فلوس پر قیاس کرنا اور دونوں کا حکم ایک کہنا درست نہیں ہے، کیوں کہ دھاتی سکوں (فلوس)  میں دو پہلو ہیں: (1) زر (ثمنيت) ، (2) عروض (سامان) ، اور فلوس   ميں   زر کی بجائے سامان کا پہلو غالب ہے، اس لیے احناف ميں سے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، امام ابو یوسف رحمہ اللہ کا  نقطہ نظر یہ ہے کہ فلوس ( دھاتی سکوں) سامان کی طرح ہیں،متعاقدین دھاتی سکوں کو متعین کر کے ان کی زر ہونے کی حیثیت کو ختم کر سکتے ہیں، باقی لوگ  اگر چہ اس کو ثمن قرار دیں  لیکن ان کو متعاقدین پر ولایت حاصل نہیں ہے؛  لہذا  کمی بیشی کے ساتھ فلوس  کا تبادلہ حرام نہیں ہے، اور   شراکت و مضاربت میں ان  كو  راس المال بنانے کی اجازت نہیں  اور  ان ميں بيع سلم جائز ہے،  البته امام محمد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ : فلوس ”زر“ ہیں،  ان کو شرکت اور مضاربت  میں رأس المال بنانا  جائز ہے،    ان میں بیع سلم  جائز نہیں ہے،  اور ان میں زکوۃ بھی واجب ہے،  متعاقدین ان کی ثمنیت کو  ختم نہیں کرسکتے ، اس لیے کہ یہ سب لوگوں کی اصطلاح سے ثمن بنے ہیں،   اور  یہی قول مفتیٰ بہ ہے۔

چوں کہ فلوس میں یہ  دونوں حیثیتیں ہیں ،   اس لیے شیخین رحمہما اللہ کے  نظر میں  یہ  زر میں شامل  نہیں ہیں ، بلکہ سامان میں شامل ہیں ، یا پھر زر ہیں تو ناقص زر ہیں، کرنسی نوٹوں کی طرح کامل زر نہیں ہیں، اسی لیے یہ حضرات متعاقدین کو فلوس سے زر کا وصف ختم کرنے کی اجازت دیتے ہیں ،لیکن  کرنسی نوٹوں میں فلوس یعنی دھاتی سکوں کی طرح سامان کا پہلو غالب نہیں ہے ، یہ تو خالص کاغذ کے ٹکڑے ہیں ، ان کی جو بھی  حیثیت ہے وہ ان کے پشت پر حکومتی ضمانت کی وجہ سے ہی ہے،  سامان کے اعتبار  سے  نہیں اور متعاقدین کو ان کے زر ہونے کی حیثیت کو ختم کر کے کالعدم کرنے کا اختیار بھی نہیں ہے، بلکہ ختم کرنے سے ختم ہوگا بھی نہیں، کیونکہ یہ قانونی زر ہیں،  اور موجودہ دور میں کسی چیز کی ثمنیت حکومتی قانون کی رو سے عمل میں آتی ہے اور حکومتی اعلان سے ثمنیت ختم ہوجاتی ہے ، عوام کا اس بارے  میں کسی قسم کا عمل دخل نہیں ہے، لیکن سابقہ زمانہ میں  عوام کے اتفاق سے ثمن بن جاتا تھا اور عوام کے اتفاق سے ثمن ہونا ختم ہوجاتا تھا،اس بارے میں حکومتی قانون نہیں تھا، لہذا   یہ  کرنسی نوٹ مستقل کرنسی ہے ، اور سونے چاندی کی طرح ان میں بھی سود کے احکام جاری ہوں گے ، ربا (سود ) اور تلف کرنے کی صورت میں ضمان لازم ہونے کے مسائل میں مکمل طور پر سونے چاندی کے احکام لاگو ہوں گے،  کرنسی نوٹوں کی جنس مختلف ہونے کی وجہ سے کمی زیادتی کے ساتھ تبادلہ کرنا جائز ہوگا، جیسا سونے اور چاندی میں کمی زیادتی کے ساتھ تبادلہ کرنا جائز ہے، البتہ ادھار کا معاملہ جائز نہیں ہوگا ، اور مجلس عقد میں دونوں جانب سے نقد ادا کرنا لازم ہوگا ، ورنہ سود ہونے کی وجہ سے گناہ بھی ہوگا اور عقد بھی جائز نہیں ہوگا۔اور جنس ایک ہونے کی صورت میں کمی زیادتی اور ادھار دونوں حرام ہوگا۔نيز كرنسی نوٹ کے ذریعے سونا چاندی خریدنے میں تفاضل تو جائز ہے، لیکن  ادھار جائز نہیں ہے۔

جامعہ کے سابقہ رئیس دارالافتاء حضرت مولانا مفتی عبد السلام چاٹگامی صاحب  اس مسئلہ  کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں کہ : 

” کتب فقہ میں امام محمد رحمۃ اللہ علیہ سے صریح روایت موجود ہے کہ عامة الناس کے اصطلاحی ثمن، حقیقی ثمن کے حکم میں ہیں، حقیقی ثمن کے جو احکام ہوتے ہیں اصطلاحی ثمن  کے لیے  بھی وہی احکام ہوں گے، البتہ شیخین رحمہما اللہ  نے امام محمد رحمہ اللہ  کی روایت سے اختلاف کیا ہے، انہوں نے کہا کہ اصطلاحی ثمن کے احکام بالکل حقیقی ثمن کی طرح نہیں ہیں، اس لیے  شیخین کے نزدیک حقیقی ثمن میں اتحاد جنس ہو تو تفاضل نا جائز ہے، لیکن اصطلاحی ثمن میں تفاضل جائز ہے، شیخین نے اس موقع پر اصطلاحی ثمن کی حقیقی ثمن کی طرح نہ ہونے کی جو وجہ بتائی ہے وہ یہ ہے کہ عامتہ الناس کی اصطلاح پر عمل کرنا عاقدین کے ذمہ لازم نہیں ہے اور عامة الناس کو اس بات کا حق حاصل نہیں کہ اپنی مقرر کردہ اصطلاح عاقدین پر مسلط کردیں، اور نہ ہی عاقدین کے ذمہ لازم ہے کہ عامۃ الناس کی اصطلاح پر پابندی کریں ، "لعدم الولاية" کیوں کہ  عامۃ الناس کو اس کا اختیار نہیں ہے۔

شیخین کی اس تعلیل سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخین کے نزدیک عاقدین پر عامتہ الناس کی اصطلاح پر عمل کرنا اور ان کے اصطلاحی ثمن کو ثمن تسلیم کرنا اس لیے  ضروری نہیں ہوتا کہ عامتہ الناس کو عاقدین پر ولایت عامہ کا حق حاصل نہیں ہے ، اس لیے ان کی مقرر کردہ اصطلاح پر عمل کرنا عاقدین کے ذمہ واجب نہیں ہے،  لیکن ہمارے زیر بحث مسئلہ میں حکومت اور اسٹیٹ کو عامۃ الناس، ما تحت رعایا پر ولایت عامہ حاصل ہے، حکومت اور اسٹیٹ کی جانب سے جاری کردہ کاغذی سکوں کو سکّہ تسلیم کرنا اور کرنسی نوٹ کو قائم مقام ثمن تسلیم کرنا اور اس کو تمام معاملات میں ،لین دین میں قبول کرنا  رعایا اور عامتہ الناس پر ضروری و لازم ہوتا ہے،  قبول نہ کرنے کی صورت میں قانوناً مجرم قرار پاتے ہیں،  جس سے معلوم ہوا کہ صاحبِ ولایت حکومت اور صاحبِ اختیار اسٹیٹ کی طرف سے جاری کردہ کاغذی سکوں کو ثمن تسلیم کرنا اور اس پر عمل کرنا عامۃ الناس پر شیخین کے نزدیک بھی واجب ہے۔ شیخین کا امام محمد سے اختلاف اس صورت میں ہے کہ  جب اصطلاح ثمن جاری کرنے والے کو ولایت عامہ حاصل نہ ہو تو اس وقت ان کے اصطلاحی ثمن کو تسلیم کرنا عاقدین پر واجب اور لازم نہیں ہے، لہذا اگر کسی صاحبِ اختیار حکومت نے اصطلاحی ثمن جاری کیا ہے تو اس کو ثمن تسلیم کرنا اور لین دین میں اسے استعمال کرنا عاقدین کے لیے  شیخین کے نزدیک بھی لازم وضروری ہے،  تو باتفاق ائمہ ثلاثہ حکومت کے جاری کردہ کاغذی سکّے (نوٹ) حقیقی سکّے کے قائم مقام ہوں گے ،اس واسطے جو تصرفات حقیقی ثمن میں جائز  ہوں  گے وہی تصرفات حکمی ثمن کاغذی سکوں میں بھی جاری ہوں گے(جائز ہوں گے)، اور جو تصرفات حقیقی ثمن میں ناجائز ہوں گے ،وہی تصرفات ان کاغذی سکوں میں بھی نا جائز ہوں گے ، اسی وجہ سے سب کا متفقہ فتویٰ ہے کہ کاغذی سکوں سے جب لین دین ہو تو بصورتِ اتحادِ جنس تفاضل بوجہ سود ہونے کے ناجائز وحرام ہو گا،  مثلاً دس روپے کے ایک نوٹ کے بدلہ میں دس روپے سے زائد لینا سود ہوگا، حرام ہوگا، کیوں کہ کاغذی سکہ اصطلاحی ثمن قرار پایا ہے، حکومت کی جانب سے جاری کردہ اصطلاحی ثمن کو عامتہ الناس نے بطور ثمن قبول کیا ہے اور اسے ثمن تسلیم کرتے ہوئے تمام اسلامی معاملات میں بحیثیت ثمن ہونے کے استعمال کیا جاتا ہے، بلکہ عامتہ الناس پر قانو نا یہ لازم ہے کہ اصطلاحی ثمن کو تسلیم کریں اور اسی سے تمام معاملات اور خریدو فروخت کریں، اگر کوئی شخص اس کوثمن تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے اور بحیثیت ثمن اسے قبول نہیں کرتا تو یہ  شخص قانونِ ملک کی رو سے سزا کا مستحق قرار پاتا ہے،  جس سے معلوم ہوا کہ با اختیار حکومت کو رعایا پر ولایت عامہ حاصل ہے، اور حکومت کی جانب سے جاری کردہ کاغذی سکہ (مصنوعی ثمن ) حقیقی ثمن کی طرح ہے، اسے تسلیم کرنار عایا پر لازم و واجب ہے۔“

(جواہر الفتاوی (1/ 423 ، 424) بعنوان: کرنسی نوٹ کی شرعی حیثیت،  ط: اسلامی کتب خانہ)

مذکورہ  بالا تفصیل کی روشنی میں آپ کے دونوں سوالات کے جوابات آگئے ہیں، باقی آپ نے جو حوالہ جات پیش کئے ہیں، وہ فلوس سے متعلق ہیں  اور شیخین کے مسلک کے مطابق ہیں،  جس کی مکمل تفصیل ماقبل میں ذکر ہوئی، اور علامہ حصکفی رحمہ اللہ نے     "بيع الثمن بالثمن"  کی جو تفسیر "ما خلق للثمنية" سے کی ہے، اس کے شرح میں علامہ شامی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ: ”صاحبِ بحر نے  بھی اس طرح ذکر کیا ہے اور اس کے بعد فرمایا کہ : اس کی یہ تفسیر اس  وجہ سے کی ہے تاکہ اس میں زیورات کی زیورات کے بدلے یا نقد کے بدلے خرید و فروخت بھی داخل ہوجائے ؛ اس لیے کہ زیورات  بنانے کے عمل میں جو کاریگری ہوتی ہے اس کی وجہ سے وہ  خالص ثمن نہیں رہتے۔“

(قوله: أي ما خلق للثمنية) ذكر نحوه في البحر. ثم قال: وإنما فسرناه به ليدخل فيه بيع المصوغ بالمصوغ أو بالنقد، فإن المصوغ بسبب ما اتصل به من الصنعة لم يبق ثمنا صريحا، ولهذا يتعين في العقد ومع ذلك بيعه صرف اهـ.

(رد المحتار، 5 / 257، کتاب البیوع، باب  الصرف، ط: سعيد)

لیکن چوں کہ  سونا ، چاندی  خلقتاً ثمن ہیں ؛ اس لیے وہ کسی بھی حالت میں ہوں ان کا یہ حکم ہے،  لہذا یہ بات سونا چاندی کی خریدوفروخت کے تناظر میں ہے،دوسرا یہ کہ  قانونی  کرنسی کا رواج زیادہ قدیم نہیں ہے، اور  اگر اس کی ثمنیت والی حیثیت تسلیم نہیں کریں گے تو بہت سے شرعی مسائل میں حرج لازم آئے گا۔

2: کرنسی نوٹ سونے  کے قائم مقام  اس بنا پر نہیں ہیں کہ ان کی پشت پر سونا ہے، بلکہ یہ خود مستقل اصطلاحی اور قانونی کرنسی ہے، یہ سونے چاندی کی رسید نہیں ہے۔ جیساکہ ماقبل میں ذکر ہوا۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام ميں هے :

قال (ويجوز بيع الفلس بالفلسين بأعيانهما) عند أبي حنيفة وأبي يوسف، وقال محمد: لا يجوز لأن الثمنية تثبت باصطلاح الكل فلا تبطل باصطلاحهما، وإذا بقيت أثمانا لا تتعين فصار كما إذا كان بغير أعيانهما وكبيع الدرهم بالدرهمين.  ولهما أن الثمنية في حقهما تثبت باصطلاحهما إذ لا ولاية للغير عليهما فتبطل باصطلاحهما وإذا بطلت الثمنية تتعين بالتعيين ولا يعود وزنيا لبقاء الاصطلاح على العدد.

قال ابن الهمام تحته: ... والرابع أن يبيع فلسا بعينه بفلسين بعينهما فيجوز خلافا لمحمد. وأصله أن الفلس لا يتعين بالتعيين ما دام رائجا عند محمد، وعندهما يتعين، حتى لو هلك أحدهما قبل القبض بطل العقد. وجه قول محمد أن الثمنية ثبتت باصطلاح الكل فلا تبطل باصطلاحهما وإذا بقيت أثمانا لا تتعين فصار كما لو كانا بغير عينهما وكبيع الدرهم بالدرهمين. ولهما أن ثمنيتها في حقهما ثبتت باصطلاحهما إذ لا ولاية للغير عليهما فتبطل باصطلاحهما، وإذا بطلت الثمنية تعينت بالتعيين لصيرورتها عروضا. اعترض عليه بأن الفلوس إذا كسدت باصطلاح الكل لا تكون ثمنا باصطلاح المتعاقدين فيجب أن لا تصير عروضا باصطلاح المتعاقدين مع اتفاق من سواهما على ثمنيتها،  أجيب بأن الفلوس في الأصل عروض، فاصطلاحهما على الثمنية بعد الكساد كان على خلاف الأصل فلا يجوز أن تصير ثمنا باصطلاحهما لوقوع اصطلاحهما على خلاف الأصل وخلاف الناس."

(7 / 20، باب الربا، ط: دارالفكر)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"(هو بيع بعض الأثمان ببعض) كالذهب والفضة إذا بيع أحدهما بالآخر أي بيع ما من جنس الأثمان بعضها ببعض وإنما فسرناه به ولم نبقه على ظاهره ليدخل فيه بيع المصوغ بالمصوغ أو بالنقد فإن المصوغ بسبب ما اتصل به من الصنعة لم يبق ثمنا صريحا ولهذا يتعين في العقد ومع ذلك بيعه صرف ...شرائطه فأربعة، الأول قبض البدلين قبل الافتراق بالأبدان.

(قوله: فلو تجانسا شرط التماثل والتقابض) أي النقدان بأن بيع أحدهما بجنس الآخر فلا بد لصحته من التساوي وزنا ومن قبض البدلين قبل الافتراق."

(6/ 209، باب الصرف، ط: دارالكتب الاسلامى)

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"وفي الأصل روي عنهما أن المضاربة بالفلوس لا تجوز؛ لأنها إذا كسدت فهي كالعروض فهي ثمن من وجه مبيع من وجه وهي ثمن لبعض الأشياء في عادة التجار دون البعض فكانت كالمكيل والموزون فإنها ثمن دينا ومبيع عينها فلا تصح المضاربة بها."

(22/ 21، كتاب المضاربة، ط: دار المعرفة)

تکملۃ فتح الملہم میں ہے:

"بيع فلوس معينة بالتفاضل، كبيع الفلس الواحد بعينه بالفلسين لآخرين بعينهما، وفيه  خلاف مشهور ، فقال محمد : إنه لا يجوز أيضا؛ لان الفلوس عنده لا تتعين بالتعيين في حال من  الأحوال ؛ لأنها أثمان ، والأثمان لا تتعين، ولا يجوز للمتعاقدين أن يبطلا ثمنيتها؛ لإنها ثبت باصطلاح الكل ، فلا تسقط باصطلاح البعض، فصار كبيع فلوس غير متعينة، وقال أبو حنيفة وأبو يوسف رحمهما الله: إن الفلوس كانت في الأصل عروضا، وإنما صارت أثمانا باصطلاح المتعاقدين؛ لإنه لا ولاية لغيرهما علي أنفسهما في ذلك، فلو اصطلحا على إبطال الثمنية، والعود إلي الأصل، كان لهما ذلك، وحينئذ صارت عروضا عددية، وجاز الفاضل فيها كما في سائر العدديات، والذي يظهر لهذا العبد الضعيف ۔عفا الله عنه۔ أن قول محمد رحمه الله أولىٰ بالأخذ في زماننا، فإنه قد نفدت اليوم دراهم أو دنانير مضروبة بالفضة أو الذهب، وصارت الفلوس بمنزلتها في كل شئي، فلو أبيع التفاضل فيها ولو بتعينها لانفتح باب الربا بمصراعيه لكل من هب ودب، فينبغي أن يختار قول محمد رحمه الله، كما منع المشائخ التفاضل في العدالي والغطارفة."

(1/ 588، کتاب المساقاۃ والمزارعة، باب الربا،حكم العملة الرائجة، ط: مكتبة دارالعلوم كراچی)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411100008

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں