بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری شدہ مال کاحکم


سوال

اگر کوئی شخص کسی کی ملکیت میں موجود پھل دار درخت سے اس کی اجازت کے بغیر پھل توڑ لے اور مالک کو پتہ نہ ہو پھل توڑنے والا شخص  کون ہے ، اور پھل توڑنے والے کو پتہ نہ ہو کہ مالک کون  ہے اور پھل توڑنے کے بعد اس کے دل میں خیال آیا کے اس نے یہ غلط کیا ہے، اب وہ ان پھلوں کا کیا کرے؟

جواب

صورتِ مسئولہ ميں  سب سے پہلے مذكوره شخص كو اپنے اس عمل پر الله تبارك وتعالي سے خوب توبہ واستغفار كرنا  چاہيے ،اور آئنده اس طرح كے كاموں سے مکمل  پرهيز كرے ، اس کے بعد  یہ معلوم کرے کہ باغ کا مالک کو ن ہے اس کو  پھل واپس کرے ، اگر باغ کامالک  موجود نہ ہو تو اس کے کسی  وارث  کو تلاش کر کے اس کے حوالے  کردیا جائے  ، اگر  مالک اور اس کے ورثاء میں سے کسی کا پتہ نہ  چلے تو اس صورت میں مذکورہ (چوری شدہ ) پھلوں کو کسی غریب شخص کو بغیر ثواب کی نیت سے صدقہ کردے ۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

'' (عليه ديون ومظالم جهل أربابها وأيس) من عليه ذلك (من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله)، هذا مذهب أصحابنا لا نعلم بينهم خلافاً.

'' (قوله: جهل أربابها) يشمل ورثتهم، فلو علمهم لزمه الدفع إليهم؛ لأن الدين صار حقهم''.

( کتاب اللقطة،4 /283،   سعید)

مجلة الاحکام العدلیة میں ہے:

" لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه."

(‌‌المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية،ص27،دار الجیل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101312

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں