بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کی طرف سے ملنے والے فنڈ کی ورثاء میں تقسیم کا حکم


سوال

میرے  مرحوم بھائی ایک سرکاری کمپنی میں ملازمت کر رہے تھے،  اس نے پانچ لاکھ قرض بھی لیا تھا،  اس نے اپنی بیوہ ، میرے والد ، میری بہن ، میرے بھائی اور مجھے بھی نامزد کیا تھا،  میرے والد اور بہن کا انتقال ہوگیا ہے،  اب صرف اس کی بیوہ ، میرا بھائی اور میں نامزد ہیں۔ اب میں جاننا چاہتا ہوں کہ "حق فنڈ" (جو اس کمپنی میں کہا جاتا ہے) ہمارے درمیان کیسے تقسیم ہوگا؟ رقم 8،000،000 / - روپے ہے۔

جواب

واضح رہے کہ کپپنی  کی طرف سےملنے والے فنڈ مختلف قسم کے ہوتے ہیں؛ اس لیے حکم بھی ہر ایک کا مختلف ہوتا ہے۔ سائل کے بھائی کی کمپنی کی طرف سے ملنے  والی  رقم اگر  پراویڈنٹ  فنڈ  کی مد میں ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ  پراویڈنٹ  فنڈ   کی مد میں  رقم کی کٹوتی اگر  مرحوم  کی تنخواہ سے جبری ہوتی تھی یعنی ان  کی  اجازت کے بغیر تنخواہ میں سے کٹوتی کی جاتی تھی اور عام طور پر سرکاری اداروں میں یہ کٹوتی جبری ہی ہوتی ہے تو پراویڈنٹ فنڈ کی مد میں ملنے والی کل رقم مع منافع وغیرہ کے حلال اور جائز ہے اور اس میں  مرحوم کے تمام ورثاء(جو اس کے انتقال کے وقت موجود تھے )  اپنے اپنے شرعی حصوں کے تناسب سے حق دارہوں گے، اور اگر  یہ رقم  گریجویٹی فنڈ  کے نام سے آرہی ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ  جس کے نام پہ آئی ہے، وہی اس کا مستحق ہے۔

پراویڈنٹ فنڈ کی صورت میں مذکورہ رقم کی تقسیم  کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم  کی  مرحوم کے    حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے اور اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ  ہو تو قرضہ کی ادائیگی کے بعد،  اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرنے کے بعد باقی رقم کو   آٹھ حصوں میں تقسیم کرکے بیوہ کو دو حصے اور ہر بھائی کو تین ،تین حصے ملیں گے۔

نوٹ:پراویڈنٹ فنڈ کی صورت میں جو تقسیم کی ہے یہ اس صورت میں ہے جب مرحوم کے انتقال کے وقت یہی ورثاء موجود ہوں،اگر ان کے علاوہ  مرحوم  کی والدہ، اولاد اور بہن وغیرہ میں سے کوئی اور بھی مرحوم  کے انتقال کے وقت موجود تھا تو اس صورت میں دوبارہ تفصیل لکھ کر معلوم کر لیا جائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200164

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں