ٹیلی گرام پر کام کرکے پیسے کمانا کیسا ہے،اور وہ اماؤنٹ کرپٹو کرنسی میں دیتے ہیں،اس کو کنورٹ کسی بھی اکاؤنٹ میں کیا جاسکتا ہے،اس کوئی انویسٹمینٹ نہیں کرنی ہوتی،گیمز کھیلنے ہیں یا ٹاسک پورے کرنے ہوتے ہیں جیسے ٹویٹر یا فیس بوک انسٹاگرام پر فولو کرنا ،تو یہ جائز ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ کرپٹوکرنسی "بٹ کوائن "محض ایک فرضی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں، لہذا موجودہ زمانے میں " کوئن" یا "ڈیجیٹل کرنسی" کی خرید و فروخت کے نام سے انٹرنیٹ پر اور الیکٹرونک مارکیٹ میں جو کاروبار چل رہا ہے وہ حلال اور جائز نہیں ہے، وہ محض دھوکا ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مادی چیز نہیں ہوتی، اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاؤنٹ میں کچھ عدد آجاتے ہیں، اور یہ فاریکس ٹریڈنگ کی طرح سود اور جوے کی ایک شکل ہے، اس لیے " بٹ کوائن" یا کسی بھی " ڈیجیٹل کرنسی" کے نام نہاد کاروبار میں پیسے لگانا اور خرید و فروخت میں شامل ہونا جائز نہیں ہے۔
چناں چہ کسی بھی قسم کا کھیل جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ورنہ وہ کھیل لہو ولعب میں داخل ہو نے کی وجہ سے شرعاً ناجائز ہوگا:
1۔ وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائزبات نہ ہو۔
2۔ اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت ہو، مثلاً جسمانی ورزش وغیرہ ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔
3۔ کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا ہو، مثلاً جوا وغیرہ۔
4۔کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے کہ شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔
حاصل یہ ہے کہ آج کل جو آن لائن گیمز ہیں، ان میں مذکورہ خرابیاں پائی جاتی ہیں، نیز ان میں مشغول ہوکر شرعی فرائض اور واجبات میں کوتاہی اور غفلت برتی جاتی ہے؛ اس لیے شرعاً ان کا کھیلنا اور اس کے ذریعہ پیسے کمانا شرعاً ناجائز ہے ۔
اور ٹاسک پورے کرکہ یا فالو کرکے پیسے کمانے کا پس منظر یہ ہے کہ عام طور پر اس نوع کے کام سے مقصود وڈیو ،ایپ،پروڈکٹ،پیج، وغیرہ کی تشہیر ہوتی ہے ،تاکہ خریدار / ناظرین کے اعداد و شمار بڑھ جائیں اور دیگر لوگوں کو راغب کیا جائے حالاں کہ اس طرح کرنے والے حقیقی خریدار بھی نہیں ،کمپنی / ایپ والے پیسے دے کر جعلی تشہیریا فالو کرواتے ہیں جو کہ دھوکے پر مبنی ہے ۔ اگر ان ٹاسکس میں جان دار کی تصاویر یا خواتین کے تصاویر بھی ہوں تو یہ اس پر مستزاد قباحت ہے۔
لہذا اس طرح کی ویب سائٹ میں رجسٹرڈ ہونا یا اس سے پیسہ کمانا جائز نہیں ۔
قرآن مجید میں ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ." ﴿المائدة: ٩٠﴾
ترجمہ:" اے ایمان والو :بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں ،سواس سے بالکل الگ رہو،تاکہ تم کو فلاح ہو"۔(بیان القرآن)
حدیث شریف میں ہے:
"وقال رسول الله صلي الله عليه وسلم:إن الله حرّم أمتي الخمر و الميسر."
(المسند للامام احمد،2 /124،ط: مؤسسة الرسالة)
فتاوی شامی میں ہے:
"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."
(كتاب الحظر والاباحة ، فصل في البيع، ج:6،ص: 403،ط:سعيد)
روح المعانی میں ہے:
’’ولهو الحديث على ما روي عن الحسن كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها‘‘.
(تفسیر الآلوسي (11 / 66)، سورة لقمان، ط:دار الکتب العلمیة)
رد المحتار میں ہے:
"هي لغة: اسم للأجرة وهو ما يستحق على عمل الخير ولذا يدعى به، يقال أعظم الله أجرك. وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية."
(كتاب الإجارة،ج6،ص4،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102227
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن