بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چرس کے کاروبار کی آمدنی کا شرعی حکم


سوال

میرے والد صاحب پہلے پرچون کی بڑی دکان چلاتے تھے، کم عمری سے نشہ بھی کرتے تھے پھر غلط صحبت میں آکر چرس فرخت کرنے لگے، پھر اس کے نفع سے ایک مکان خریدا، جس کا  تین ہزار روپے ماہانہ کرایہ آتا ہے، والدصاحب نے چرس کا کاروبار چھوڑ دیا، والد صاحب نے چرس کا  کاروبار دکان کے پیسوں سے شروع کیا تھا،اب چرس  کی رقم سے کباڑ کی دکان کھولی ہے، اس دکان  میں بچوں کے کرایہ کی سائیکل بھی ہے۔

اب مکان کے کرایہ، دکان کی آمدنی اور سائیکلوں کے پیسوں کا کیا حکم ہے؟ اس کا استعمال کیسا ہے؟

ہمارے گھر کا کرایہ چالیس ہزار آتا ہے اس سے ہمارے اخراجات پورے نہیں ہوتے، میرے دو بھائیوں کا ابھی ابھی کام لگا ہے بڑے بھائی کا تو 20 یا 25 دن کام کے ہوتے ہیں۔ اور پورے پیسے بھی نہیں دیتے ، امی کو تھوڑے سے پیسے دیتے ہے۔

جواب

واضح رہے کہ چرس  خالص نشہ آور اشیاء میں سے ہے اور صرف بطورِ نشہ ہی اس کا استعمال ہوتا ہے اور نشہ کے عادی افراد ہی اسے خریدتے ہیں ،اسی طرح حکومت کی جانب سے چرس کی تجارت پر پابندی بھی ہے جس پر عمل کرنا لازم اور ضروری ہے۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے  چرس  کی تجارت شرعاً ناجائز ہے اور چرس کی تجارت سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی  حلال نہیں، لہذا چرس کے کاروبار سے جو نفع حاصل کیا گیا ہے اس کو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا ضروری ہے۔

جب چرس کے کاروبار سے حاصل کی گئی آمدنی ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردی جائے تو مذکورہ مکان کا کرایہ اور کباڑ کے کاروبار  کی کمائی  جائز ہوجائے گی۔

            حدیث شریف میں ہے:

"عن ام سلمۃ  رضی اللہ عنھا قالت نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن کل مسکر و مفتر۔"

(مشکوۃ المصابیح،کتاب الحدود،باب بیان الخمر، ص:318، ط:قدیمی)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويحرم أكل البنج والحشيشة) هي ورق القتب….ونقل عن الجامع وغيره أن من قال بحل البنج والحشيشة فهو زنديق مبتدع

(قوله فهو زنديق مبتدع) قال في البحر: وقد اتفق على وقوع طلاقه: أي آكل الحشيش فتوى مشايخ المذهبين الشافعية والحنفية لفتواهم بحرمته وتأديب باعته، حتى قالوا: من قال بحله فهو زنديق."

(کتاب الاشربة، ج:6، ص:457، ط:سعید)

وفيه ايضاّ:

"(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون.

وفي الرد:(قوله وصح بيع غير الخمر) أي عنده خلافا لهما في البيع والضمان، لكن الفتوى على قوله في البيع، وعلى قولهما في الضمان إن قصد المتلف الحسبة وذلك يعرف بالقرائن، وإلا فعلى قوله كما في التتارخانية وغيرها. ثم إن البيع وإن صح لكنه يكره كما في الغاية۔"

(رد المحتار، کتاب الاشربة، ج:6، ص: 454، ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144306100319

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں