بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کرپٹو کرنسی کا حکم


سوال

کرپٹو کرنسی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں کرنسی کے جو اوصاف اور شرائط بیان کی گئی ہیں، کرپٹو کرنسی میں وہ اوصاف و شرائط  نہیں پائی جاتیں، شرعاً کرنسی کے لیے ضروری ہے کہ  وہ خارج میں وجود رکھتاہو، یعنی وہ عین ہو اور اس کو اسٹاک بھی کیاجاسکتاہو، جب کہ کرپٹو کرنسی کا نہ تو حقیقت میں کوئی وجود ہے، اور نہ ہی اس کو اسٹاک کیاجانا ممکن ہے،اس کے مالک کے پاس اکاؤنٹ میں سوائے ہندسوں کے کچھ نہیں ہوتا؛لہذا شریعت کی رو سے یہ کرنسی نہیں ہے، اس کے ذریعہ لین دین اورکاروبارکرناجائز نہیں۔

النتف فی الفتاوی میں ہے:

"والثمن على ثمانية اوجه.اولها الفضة ويجوز ان يشتري نقدا او نسيئة وهو ان يشتري بالفضة شيئا او بالدراهم ويجوز ان تكون الدراهم والفضة نقدا او نسيئة الى وقت.والثاني الذهب والدنانير وهي كما ذكرنا من حال الفضة والدراهم.الثالث المكيل يجوز ان يشترى به شيئا نقدا او نسيئة اذا كان بين جنسه ومقداره وصفته.والرابع الموزون وحكمه كما ذكرنا من حكم المكيل.والخامس المذروع ويجوز ان يشترى به شيئا نقدا او نسيئة اذا بين جنسه ومقداره وصفته واجله عندهم وعند الشيخ يجوز وان لم يبين الاجل.والسادس الحيوان يجوز ان يشتري به نقدا ولا يجوز ان يشتري به نسيئة في قولهم جميعا.والسابع المعدودات يجوز ان يشتري بها نقدا او نسيئة اذا لم يكن بينهما تفاوت.والثامن العقار يجوز ان يشتري به نقدا ولا يجوز ان يشتري به نسيئة لان العقار والعواري لا يحتاج الى الاجل،وكذلك سائر الاشياء اذا كانت معينة والمبيع ايضا على هذه الوجوه الثمانية الى اخرها كما فسرنا في الثمن."

(كتاب الولاء،أنواع الثمن،٤٣٩/١،ط:مؤسسة الرسالة - بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"وقدمنا أول البيوع ‌تعريف ‌المال بما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، وأنه خرج بالادخار، المنفعة فهي ملك لا مال؛ لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص كما في التلويح، فالأولى ما في الدرر من قوله المال موجود يميل إليه الطبع إلخ فإنه يخرج بالموجود المنفعة فافهم."

(كتا ب البيوع،باب البيوع الفاسد،٥١/٥،ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(كتاب الحظر والاباحة ، فصل في البيع،٤٠٣/٦،ط:سعيد)

دارالعلوم دیوبند کی  ویب سائٹ پر درج ذیل فتویٰ موجود ہے:

"کریپٹو کرنسی (بٹ کوئن وغیرہ) ایک فرضی کرنسی ہے اور اس کا عنوان ہاتھی کے دانت کی طرح محض دکھانے کی چیز ہے اور فقہائے کرام کی تصریحات کی روشنی میں یہ کرنسی از روئے شرع مال نہیں ہے اور نہ ہی ثمن عرفی۔ نیز اس کاروبار میں حقیقت میں کوئی مبیع وغیرہ نہیں ہوتی اور نہ ہی اس میں بیع کے جواز کی شرعی شرطیں پائی جاتی ہیں؛ بلکہ در حقیقت یہ فاریکس ٹریڈنگ کی طرح سود اور جوے کی شکل ہے ؛ اس لیے کرپٹو کرنسی (بٹ کوئن یا کسی بھی ڈیجیٹل کرنسی) کی خرید وفروخت کی شکل میں نیٹ پر چلنے والا کاروبار شرعاًحلال وجائز نہیں ہے، مسلمانوں کو اس میں حصہ داری نہیں کرنی چاہیے۔" (فتوی نمبر 692-617: 1439)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509101103

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں