بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ قسطوں پر خریداری


سوال

 میں نے کریڈٹ کارڈ بنوایا ہے ، اور اس سے جہاز کی ٹکٹ خریدی ، اب مجھے آپشن ہے کہ میں وہ رقم قسطوں میں بھی ادا کر سکتا ہوں ، جس پر مجھے 150 درہم بس ایکسٹرا ادا کرنے ہوں گے ، تو کیا میں یہ سہولت لے سکتا ہوں ، اس پر کوئی گناہ ہے ؟اور یہ کوئی پروسیسنگ چارجز نہیں ہیں یہ مارک اپ کی مد ہے شاید۔

جواب

واضح رہے کہ کریڈٹ  کارڈبنوانا اور اس کا استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ  کریڈٹ کارڈ بنواتے وقت صارف بینک سے یہ معاہدہ کرتا ہے کہ اگرواجب الادا رقم کی ادائیگی میں تاخیر ہوئی تو اضافی رقم(جرمانہ) بطور سود ادا کروں گا تو شرعاً جرمانہ کی شرط  ہی جائز نہیں ہے، لہذا اس سودی معاہدہ کرنے کی وجہ سے کریڈٹ کارڈ  بنوانا   شرعًا نا جائز ہے۔اگر چہ صارف اس بات کا اہتمام بھی کر لے کہ رقم کی ادائیگی میں تاخیر نہ ہو تب بھی معاہدہ پر رضامندی  کی وجہ سے یہ معاملہ ناجائز ہے، اور اگر مقررہ مدت کے بعد سود کے ساتھ رقم واپس کرتا ہے تو اس کے حرام ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے۔ لہذا کریڈٹ کارڈ جلد از جلد ختم کرنا ضروری ہے، اگر ضرورت ہو تو ڈیبٹ کارڈ استعمال کیا جاسکتا ہے۔

 صورت مسئولہ میں  کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ اگر آپ ٹکٹ لیتے ہیں، اور بینک آپ کی طرف سے  وہ رقم ادا کردیتا ہے اور وہ رقم  بینک کو قسطوں کی صورت میں واپس کرنے کی صورت میں  مزید 150  درہم ادا کرنے ہوتے ہیں تو یہ خالص سودی معاملہ ہے، بلکہ اس معاملہ میں دوہرا سودی معاملہ پایا جاتا ہے، سودی کریڈٹ کارڈ بنوانے کا اور قرض کے عوض  زائد رقم دینے کا جو کہ صریح سود ہے، لہذا اس قسم کا معاملہ  ناجائز اور حرام  ہے، اس سے  اجتناب کرنا ضروری ہے۔ 

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه ‌كل ‌قرض ‌جر ‌نفعا حرام.

قال ابن عابدين: (قوله ‌كل ‌قرض ‌جر ‌نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر."

(5/ 166، كتاب البيوع، باب القرض، مطلب ‌كل ‌قرض ‌جر ‌نفعا حرام،ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"ولا يجوز قرض جر نفعا بأن أقرضه دراهم مكسرة بشرط رد صحيحة أو أقرضه طعاما في مكان بشرط رده في مكان آخر..وفي الخلاصة :القرض بالشرط حرام."

(6 / 133،كتاب البيع، باب المرابحة  والتولية ،فصل في بيان التصرف في المبيع والثمن قبل القبض ،ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144405101625

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں