ایک کمیٹی ہے جو ٹورنامنٹ کرواتی ہے، چھ ٹیمیں ہوتی ہیں، ہر ٹیم 3000 روپے انٹری فیس دیتی ہے، ان جمع کیے ہوئے پیسوں سے کمیٹی درج ذیل کام کرتی ہے:
جو گراؤنڈ کا کرایہ ہو گا اس کو ان پیسوں سے ادا کرے گی۔
ٹورنامنٹ میں کھیل کی ضروری اشیاء کا انتظام کیا جاتا ہے، جیسے گیند، کھلاڑیوں کے لیے پانی وغیرہ۔
اخیر میں ان ہی جمع شدہ پیسوں سے جیتنے والی ٹیم کو 6000 روپے دیے جاتے ہیں۔
سارے اخراجات نکالنے کے بعد کچھ رقم بچتی ہے تو وہ کمیٹی اپنے پاس رکھتی ہے۔
کمیٹی کا مصارف کو مد نظر رکھتے ہوئے مذکورہ طریقے پر ٹورنامنٹ کروانا درست ہے یا نہیں؟
ٹورنامنٹ میں یہ شرط رکھنا کہ ہر ٹیم ایک مخصوص رقم جمع کرائے گی اور پھر اس رقم سے ٹورنامنٹ کے اخراجات نکالنے کے بعد جو رقم بچے گی وہ جیتنے والی ٹیم کو ملے گی، ٹورنامنٹ میں اس طرح کی شرط "قمار" یعنی جوے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز وحرام ہے،جس سے بچنا ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے۔
البتہ اس کی جائز صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اگر مختلف ٹیموں میں مقابلہ کروانے کی کوئی علیحدہ ٹورنامنٹ کمیٹی ہو جس کا تعلق کسی ٹیم سے نہ ہو، اور وہ کرکٹ ٹورنامنٹ کمیٹی ہر ٹیم سے مقابلہ میں میدان کی اجرت اور دیگر اخراجات کی مد میں ایک متعین رقم وصول کرے اور یہ رقم کمیٹی کو مالک بنا کر دے دی جائے، پھر ٹورنامنٹ کمیٹی اس جمع شدہ رقم میں سے ٹورنامنٹ کے اخراجات کرے اورجیتنے والوں کو یا کھیل میں اچھی کارکردگی دکھانے والوں کو حسبِ صواب دید انعام دے اور اس بارے میں مکمل بااختیار ہو کہ کم یا زیادہ جتنا چاہے انعام مقر رکرے اور چاہے نقد رقم انعام میں دے یا کوئی ٹرافی وغیرہ دے تو یہ صورت جائز ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(ولا بأس بالمسابقة في الرمي والفرس) والبغل والحمار، كذا في الملتقى والمجمع، وأقره المصنف هنا خلافاً لما ذكره في مسائل شتى، فتنبه، (والإبل و) على (الأقدام) ... (حل الجعل) ... (إن شرط المال) في المسابقة (من جانب واحد وحرم لو شرط) فيها (من الجانبين)؛ لأنه يصير قمارًا (إلا إذا أدخلا ثالثًا) محللاً (بينهما) بفرس كفء لفرسيهما يتوهم أن يسبقهما وإلا لم يجز ثم إذا سبقهما أخذ منهما وإن سبقاه لم يعطهما وفيما بينهما أيهما سبق أخذ من صاحبه ... وأما السباق بلا جعل فيجوز في كل شيء كما يأتي.
وفي الرد: (قوله: من جانب واحد) أو من ثالث بأن يقول أحدهما لصاحبه: إن سبقتني أعطيتك كذا، وإن سبقتك لا آخذ منك شيئًا، أو يقول الأمير لفارسين أو راميين: من سبق منكما فله كذا، وإن سبق فلا شيء له، اختيار وغرر الأفكار. (قوله: من الجانبين) بأن يقول: إن سبق فرسك فلك علي كذا، وإن سبق فرسي فلي عليك، كذا زيلعي. وكذا إن قال: إن سبق إبلك أو سهمك إلخ تتارخانية. (قوله: لأنه يصير قمارًا) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قمارًا؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، ولا كذلك إذا شرط من جانب واحد؛ لأن الزيادة والنقصان لاتمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلاتكون مقامرةً؛ لأنها مفاعلة منه، زيلعي. (قوله: يتوهم أن يسبقهما) بيان لقوله: كفء، لفرسيهما أي يجوز أن يسبق أو يسبق (قوله: وإلا لم يجز) أي إن كان يسبق أو يسبق لا محالة لايجوز؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: "«من أدخل فرسًا بين فرسين وهو لايأمن أن يسبق فلا بأس به، ومن أدخل فرسًا بين فرسين وهو آمن أن يسبق فهو قمار». رواه أحمد وأبو داود وغيرهما، زيلعي".
(كتاب الحظر والإباحة ، فصل في البيع ، جلد : 6 ، صفحه : 402 ،طبع : سعید)
فتاوى هندیہ ميں ہے:
"السباق يجوز في أربعة أشياء : في الخف يعني البعير ، وفي الحافر يعني الفرس والبغل ، وفي النصل يعني الرمي ، وفي المشي بالأقدام يعني العدو ، وإنما يجوز ذلك إن كان البدل معلوما في جانب واحد بأن قال : إن سبقتني فلك كذا ، وإن سبقتك لا شيء لي عليك أو على القلب ، أما إذا كان البدل من الجانبين فهو قمار حرام إلا إذا أدخلا محللا بينهما فقال كل واحد منهما : إن سبقتني فلك كذا ، وإن سبقتك فلي كذا ، وإن سبق الثالث لا شيء له ، والمراد من الجواز الحل لا الاستحقاق."
(كتاب الكراهية ، الباب السادس في المسابقة ، جلد : 5 ، صفحه : 324 ، طبع : رشيدية)
کفایت المفتی میں ہے:
"داخلہ کی فیس تو کوئی معقول نہیں۔"
(کتاب العلم ، جلد : 2 ، صفحہ : 45 ، طبع : دار الاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100158
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن