بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرکٹ ٹورنامنٹ کے انعقاد کی مختلف صورتیں


سوال

سوال-1: میرے پاس ذاتی کرکٹ گراؤنڈ ہے جس میں میں ٹورنمنٹ کھیلنے دیتاہوں، اسکی ترتیب کچھ یوں ہے کہ اس میں مختلف ٹیمیں شرکت کرتی ہیں۔ شرکت کرنے پر میں ہرٹیم سے 3000 ہزار روپے لیتا ہوں، جس کی عوض میں تمام ٹیموں کے انتظامات سنبھالتا ہوں، گراؤنڈ، بال، سکواش ٹیپ وغیرہ جتنی بھی کرکٹ کی ضروریات ہیں وہ مہیا کرتا ہوں، اسی طرح ہر میچ میں بہترین کارکردگی پر کھلاڑی کو ٹرافی یا نقد پیسے دیتا ہوں اور پھر فائنل میں جیتنے والی ٹیم کو موٹر سائکل یا سائکل یا نقد روپے دیتا ہوں اور اپنے لئے بھی کچھ پیسے بچاتا ہوں۔ اب شرعا یہ جائز ہے یا نہیں اگر جائز نہ ہو تو اس میں جواز کی صورت نکلتی ہے یا نہیں؟، براہ کرم شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

سوال-2: اسی طرح گراؤنڈ کھلاڑیوں کومیچ کھیلنے کیلئے دیتا ہوں اور ان سے کرایہ وصول کرتا ہوں ۔ بعض کھلاڑی آپس میں شرطیہ میچز کھیلتے ہیں یعنی جیتنے والی ٹیم کو ہارنے والی ٹیم ایک خاص مقدار میں مثلا 2000 روپے یا کرکٹ بیٹ یا کوئی اور چیزدیتی ہے ، ان شرط کے میچز کی وجہ سے وصول کردہ کرایہ پرکوئی اثر پڑتا ہے یا نہیں؟، اور بعض جو شرط کے بغیر میچز کھیلتے ہیں، ان کے کرایہ کی بھی رہنمائی فرمائیں۔

سوال-3: اسی طرح کرکٹ اکیڈمی میں روزانہ کھلاڑی پریکٹس کیلئے آتے ہیں اور ان سے ماہانہ فیس وصول کرتے ہیں، شرعی نقطہ نظر سے اس کی رہنمائی فرمائیں۔

سوال 4- کرکٹ میچز یا کھلاڑیوں کی پریکٹس کی ویڈیوز بنا کر کھلاڑیوں کو بیچنا کیسا ہے؟

جواب

 جواب سے پہلے تمہید کے طور پر یہ ذہن نشین رہے کہ   کسی بھی   کسی قسم کا کھیل جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ورنہ وہ کھیل لہو ولعب میں داخل ہونے کی وجہ سے شرعاً ناجائز ہوگا:

1۔۔  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔

2۔۔ اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت  ہو، مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔  کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔

4۔۔  کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

  اگر ان شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے میچ وغیرہ کھیلا جائے تو شرعاً   اس کی اجازت ہے۔ 

1۔لہذا صورتِ مسئولہ میں  اگر آپ اپنے ذاتی گراؤنڈ میں  ہر ٹیم سے متعین رقم مقابلہ میں داخلہ کی فیس کے طور پر  (انٹری فیس) وصول کرکے ٹورنامنٹ منعقد کرائیں، انعام کے عنوان سے کوئی رقم ان سے نہ لیں اور پھر  اس جمع شدہ رقم میں سے ٹورنامنٹ کے اخراجات کریں اورجیتنے والوں کو یا کھیل میں اچھی کارکردگی دکھانے والوں کو حسبِ صواب دید انعام دیں اور اس بارے میں مکمل با ختیار ہوں کہ کم یا زیادہ جتنا چاہے انعام مقررکریں اور چاہےنقد رقم انعام میں دیں یا کوئی ٹرافی وغیرہ دیں ، چاہیں تو بالکل نہ دیں تو یہ صورت جائز ہے ، بشرطیکہ مقابلہ اور کھیل میں مذکورہ  شرعی حدود سے تجاوز  نہ کیا جائے۔

2۔ یہ صورت جائز نہیں، اس لئے  کہ شریعتِ مطہرہ میں مقابلے کے اندر جانبین (دونوں فریق) کی جانب سے مالی شرط لگانا ’’جوا‘‘ اور ’’قمار‘‘ کے حکم میں ہے ، اور ’’جوا‘‘و ’’قمار‘‘ شرعاً ناجائز اور حرام ہے، لہذا اس سے احتراز لازم ہے، اور ایسی صورت میں آپ کا اپنی ذاتی جگہ کسی کو ناجائز کام کے لئے مہیا کرنا اور اس پر کرایہ لینا بھی جائز نہیں،  یہ گناہ پر تعاون کرنا ہے۔ البتہ اگر شرط ایک جانب سے لگائی جائے اور دوسری جانب سے کوئی انعام مقرر نہ کیا جائے یا انعام کسی ایسے ثالث کی طرف سے مقرر کیا جائے جو خود مقابلہ میں شامل بھی نہ ہو اور اپنی طرف سے بطورِ تبرع جیتنے والے کو انعام دے تو یہ صورت ممانعت میں داخل نہیں۔

3۔ یہ صورت جائز ہے۔

4۔ ویڈیو اور تصویر بنانا چاہے کسی بھی مقصد کے لئے ہو ،جائز نہیں۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے:

"وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۠وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ ." ( المائدة:2)

ترجمہ:اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن أشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون»."

(الصحيح لمسلم، كتاب اللباس، باباب لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة، رقم الحدیث: 2109)

الدر المختار میں ہے:

"(ولا بأس بالمسابقة في الرمي والفرس) والبغل والحمار، كذا في الملتقى والمجمع، وأقره المصنف هنا خلافاً لما ذكره في مسائل شتى، فتنبه، (والإبل و) على (الأقدام) ... (حل الجعل) ... (إن شرط المال) في المسابقة (من جانب واحد وحرم لو شرط) فيها (من الجانبين)؛ لأنه يصير قمارًا (إلا إذا أدخلا ثالثًا) محللاً (بينهما) بفرس كفء لفرسيهما يتوهم أن يسبقهما وإلا لم يجز ثم إذا سبقهما أخذ منهما وإن سبقاه لم يعطهما وفيما بينهما أيهما سبق أخذ من صاحبه ...  وأما السباق بلا جعل فيجوز في كل شيء كما يأتي....

وفي الرد:...(قوله: من جانب واحد) أو من ثالث بأن يقول أحدهما لصاحبه: إن سبقتني أعطيتك كذا، وإن سبقتك لا آخذ منك شيئًا، أو يقول الأمير لفارسين أو راميين: من سبق منكما فله كذا، وإن سبق فلا شيء له، اختيار وغرر الأفكار. (قوله: من الجانبين) بأن يقول: إن سبق فرسك فلك علي كذا، وإن سبق فرسي فلي عليك، كذا زيلعي. وكذا إن قال: إن سبق إبلك أو سهمك إلخ تتارخانية. (قوله: لأنه يصير قمارًا) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قمارًا؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، ولا كذلك إذا شرط من جانب واحد؛ لأن الزيادة والنقصان لاتمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلاتكون مقامرةً؛ لأنها مفاعلة منه، زيلعي. (قوله: يتوهم أن يسبقهما) بيان لقوله: كفء، لفرسيهما أي يجوز أن يسبق أو يسبق (قوله: وإلا لم يجز) أي إن كان يسبق أو يسبق لا محالة لايجوز؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: "«من أدخل فرسًا بين فرسين وهو لايأمن أن يسبق فلا بأس به، ومن أدخل فرسًا بين فرسين وهو آمن أن يسبق فهو قمار». رواه أحمد وأبو داود وغيرهما، زيلعي".

(الدر المختار مع رد المحتار،‌‌كتاب الحظر والإباحة،  ‌‌فصل في البيع،402/6، سعید)

  تکملۃ فتح الملہم شرح صحیح المسلم میں ہے:

"فالضابط في هذا . . . أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام اور مكروه تحريماً، . . . وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة . . . كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذالك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح،  بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه‘‘.

( کتاب الشعر، باب تحریم اللعب بالنردشیر،381/4،   ط:  داراحیاء التراث العربی)

المحيط البرهاني في الفقه النعماني "میں ہے:

"فإن شرطوا لذلك جعلاً، فإن شرطوا الجعل من الجانبين فهو حرام، وصورة ذلك: أن يقول الرجل لغيره: تعال حتى نتسابق، فإن سبق فرسك، أو قال: إبلك أو قال: سهمك أعطيك كذا، وإن سبق فرسي، أو قال: إبلي، أو قال: سهمي أعطني كذا، وهذا هو القمار بعينه؛ وهذا لأن القمار مشتق من القمر الذي يزداد وينقص، سمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويستفيد مال صاحبه، فيزداد مال كل واحد منهما مرة وينتقص أخرى، فإذا كان المال مشروطاً من الجانبين كان قماراً، والقمار حرام، ولأن فيه تعليق تمليك المال بالخطر، وإنه لا يجوز.وإن شرطوا الجعل من أحد الجانبين، وصورته: أن يقول أحدهما لصاحبه إن سبقتني أعطيك كذا، وإن سبقتك فلا شيء لي عليك، فهذا جائز استحساناً، والقياس أن لا يجوز. "

(المحيط البرهاني، كتاب الكراهية والاستحسان، ‌‌‌‌الفصل السابع في المسابقة، 323/5، ط:دارالكتب العلمية/ 14/8، ط: ادارة القرآن)

الفتاوى الهندية  "ميں ہے:

"السباق يجوز في أربعة أشياء : في الخف يعني البعير ، وفي الحافر يعني الفرس والبغل ، وفي النصل يعني الرمي ، وفي المشي بالأقدام يعني العدو ، وإنما يجوز ذلك إن كان البدل معلوما في جانب واحد بأن قال : إن سبقتني فلك كذا ، وإن سبقتك لا شيء لي عليك أو على القلب ، أما إذا كان البدل من الجانبين فهو قمار حرام إلا إذا أدخلا محللا بينهما فقال كل واحد منهما : إن سبقتني فلك كذا ، وإن سبقتك فلي كذا ، وإن سبق الثالث لا شيء له ، والمراد من الجواز الحل لا الاستحقاق."

( الفتاوى الهندية،كتاب الكراهية، الباب السادس في المسابقة،324/5، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101169

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں