بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرکٹ ٹورنامنٹ کا حکم


سوال

ایک جگہ کرکٹ ٹورنامنٹ ہو رہا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ جو ٹیم بھی ٹورنامنٹ میں حصہ لے گی، اس کو 3000 انٹری فیس دینی ہو گی جو کہ ناقابلِ واپسی ہے اور اول ٹیم کو 50000 دوم کو 30000 سوم کو 20000 انعام دیا جائے گا، ایک شخص کہتا ہے کہ اس طرح کا کام "جوا" کہلاتا ہے جب کہ ٹیم انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جو انٹری فیس لی جاتی ہے وہ ٹیموں پر ہی خرچ کی جاتی ہے اور مزید مہمانِ خصوصی اپنی طرف سے ملاتا ہے، پھر جاکر کہیں انعامات کی رقم پوری ہوتی ہے تو یہ ایک طرح سے سب کو تفریح کا موقع مل جاتا ہے تو اس کو "جوا"  کہنا غلط ہے، آپ سے درخواست ہے کہ آپ شریعت کی روشنی میں راہ نمائی فرما دیں!

جواب

 جواب سے پہلے تمہید کے طور پر یہ ذہن نشین رہے کہ   کسی بھی   کسی قسم کا کھیل جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ورنہ وہ کھیل لہو ولعب میں داخل ہونے کی وجہ سے شرعاً ناجائز ہوگا:

1۔۔  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔

2۔۔ اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت  ہو، مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔  کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔

4۔۔  کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

            اگر ان شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے میچ وغیرہ کھیلا جائے تو  اس کی اجازت ہے، باقی اگر  ٹورنامنٹ میں شروع ہی سے یہ شرط ہو کہ  ہر ٹیم رقم جمع کرائی گی جیسا کہ سوال میں ذکر کیا گیا ہے اور پھر اس رقم سے اخراجات نکالنے کے بعد  جو رقم بچے گی وہ جیتنے والی ٹیم یا نمبر وار ٹیموں کو دیا جائے گا، باقی ٹیموں کو کچھ نہ ملے گا تو یہ  ناجائز ہے، یہ صورت "قمار" یعنی جوے میں داخل ہے،  البتہ اگر شروع  میں یہ  طےنہ ہو، بلکہ تمام ٹیمیں اخراجات کی مد میں یہ رقم جمع کرائیں  اور اس رقم سے ٹورنامنٹ کے اخراجات پورے کیے جائیں، پھر جو رقم بچ جائے وہ رقم واپس لینے کا اختیار بھی ہو، اور وہ  سب ٹیموں کی رضامندی سے دباؤ کے بغیر کسی ایک ٹیم (خواہ وہ جیتنے والی ٹیم ہو) کو دے دیں تو اس کی گنجائش ہوگی، یا پہلے سے بتادیا جائے کہ جیتنے والی ٹیموں کو انعامات اس جمع کردہ رقم سے نہیں دیے جائیں گے، بلکہ یہ رقم ٹیموں کے اخراجات پر لگائی جائے گی، اور انعام، شرکت کرنے والی ٹیموں کے علاوہ کسی اور شخص کی طرف سے دیا جائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 402):

"(ولا بأس بالمسابقة في الرمي والفرس) والبغل والحمار، كذا في الملتقى والمجمع، وأقره المصنف هنا خلافاً لما ذكره في مسائل شتى، فتنبه، (والإبل و) على (الأقدام) ... (حل الجعل) ... (إن شرط المال) في المسابقة (من جانب واحد وحرم لو شرط) فيها (من الجانبين)؛ لأنه يصير قمارًا (إلا إذا أدخلا ثالثًا) محللاً (بينهما) بفرس كفء لفرسيهما يتوهم أن يسبقهما وإلا لم يجز ثم إذا سبقهما أخذ منهما وإن سبقاه لم يعطهما وفيما بينهما أيهما سبق أخذ من صاحبه ...  وأما السباق بلا جعل فيجوز في كل شيء كما يأتي.

(قوله: من جانب واحد) أو من ثالث بأن يقول أحدهما لصاحبه: إن سبقتني أعطيتك كذا، وإن سبقتك لا آخذ منك شيئًا، أو يقول الأمير لفارسين أو راميين: من سبق منكما فله كذا، وإن سبق فلا شيء له، اختيار وغرر الأفكار. (قوله: من الجانبين) بأن يقول: إن سبق فرسك فلك علي كذا، وإن سبق فرسي فلي عليك، كذا زيلعي. وكذا إن قال: إن سبق إبلك أو سهمك إلخ تتارخانية. (قوله: لأنه يصير قمارًا) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قمارًا؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، ولا كذلك إذا شرط من جانب واحد؛ لأن الزيادة والنقصان لاتمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلاتكون مقامرةً؛ لأنها مفاعلة منه، زيلعي. (قوله: يتوهم أن يسبقهما) بيان لقوله: كفء، لفرسيهما أي يجوز أن يسبق أو يسبق (قوله: وإلا لم يجز) أي إن كان يسبق أو يسبق لا محالة لايجوز؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: "«من أدخل فرسًا بين فرسين وهو لايأمن أن يسبق فلا بأس به، ومن أدخل فرسًا بين فرسين وهو آمن أن يسبق فهو قمار». رواه أحمد وأبو داود وغيرهما، زيلعي".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200590

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں