بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کریڈٹ کارڈ اور بینک کے چارجز کا حکم


سوال

موبائل فون قسطوں پر خریدنا چاہتا ہوں ،اس کے لیے مجھے کریڈٹ کارڈ کی ضرورت ہے ،اور میں موبائل آن لائن ویب سائٹ پر خرید رہا ہوں، وہ ویب سائٹ مجھے ایک اسلامی بینک کے تعاون سے چھے مہینوں کی قسطوں پر تقریبا 8 پرسنٹ سروس چارجز لے رہی ہے ،کیا اس مقصد کے لیے میرا کریڈٹ کارڈ بنانا جائز ہے ؟اور اور بینک کو یہ سروس چارجز دینا بھی جائز ہے ؟ اور مجھے یہ امید بھی ہے کہ میں بینک کو ماہانہ قسط مقررہ تاریخ سے پہلے ادا کروں گا تاکہ مجھ سے سودی معاملہ  سرزد نہ ہو جائے۔

جواب

کریڈٹ کارڈ کے حصول کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ اگر وقتِ مقررہ پر رقم ادا نہیں کی تو کارڈ ہولڈر سود ادا کرنے کا پابند ہوگا ،اس شرط پر ایگریمنٹ سود کی ادائیگی پر رضامندی کی دلیل ہے ، جس طرح سودی لین جائز نہیں ہےاسی طرح اس کا معاہدہ کرنا بھی درست نہیں ہے،لہذا کریڈٹ  کارڈبنوانا جائز نہیں۔

نیز کسی بھی بینک سے قرضہ لے کر اس کی چارجز ادا کرنا سود ہے، لہذا اس سے اجتناب کرنامکمل ضروری ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

وفي الأشباه كل قرض جر نفعًا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.(قوله: كلّ قرض جر نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر.

ثم رأيت في جواهر الفتاوى إذا كان مشروطًا صار قرضًا فيه منفعة وهو ربا وإلا فلا بأس به اهـ ما في المنح ملخصًا وتعقبه الحموي بأن ما كان ربًا لايظهر فيه فرق بين الديانة والقضاء على أنه لا حاجة إلى التوفيق بعد الفتوى على ما تقدم أي من أنه يباح."

(مطلب كلّ قرض جر نفعًا حرام، ج:5،ص:166،ط:ایچ ایم سعید)

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"ماحرم فعله حرم  طلبه".

(القاعدة الرابعة عشر، ج: 1،ص: 348، ط: مکتبه علمیه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102132

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں