بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرنٹ یا زہریلے کیمیکل کے ذریعے مچھلی کے شکار کا حکم


سوال

 میں گاؤں شیرپاؤ ضلع چارسدہ کا رہائشی ہوں، ہمارے گاؤں میں مچھلی کا شکار یا تو بجلی کے کرنٹ کے ذریعے کیا جاتا ہے یا پھر پانی میں زہریلا کیمیکل ملا کر شکار کیا جاتا ہے، برائے مہربانی شریعت کے مطابق ان دونوں طریقوں کے بارے میں راہ نمائی درکار ہے۔ 

جواب

کرنٹ ،یا زہریلے کیمیکل کے ذریعہ شکار کی گئی مچھلی حلال ہے،  اس کا کھانا جائز ہے؛ کیوں کہ اس طرح  مچھلی کے شکار میں انسان کا عمل دخل شامل ہوتاہے،البتہ شکار کا یہ طریقہ کار بہترنہیں ہے،جال کے ذریعے شکار کیا جائے اس لیےکہ کرنٹ یا زہریلے کیمیکل سے سمندر میں موجود جانور بری طرح متاثر ہوتے ہیں،بلا ضرورت یہ طریقہ اختیار نہ کیا جائے،اور اگر ایسی مچھلی کھانے سے نقصان ہوتا ہے تو اس طریقہ کو ترک کرنا لازم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا) يحل (حيوان مائي إلا السمك) الذي مات بآفة ولو متولدًا في ماء نجس ولو طافية مجروحة وهبانية (غير الطافي) على وجه الماء الذي مات حتف أنفه وهو ما بطنه من فوق، فلو ظهره من فوق فليس بطاف فيؤكل كما يؤكل ما في بطن الطافي، وما مات بحر الماء أو برده وبربطه فيه أو إلقاء شيء فموته بآفة، وهبانية.

(قوله: وما مات بحر الماء أو برده) وهو قول عامة المشايخ، وهو أظهر وأرفق تجنيس، وبه يفتى، شرنبلالية عن منية المفتي (قوله: وبربطه فيه) أي الماء؛ لأنه مات بآفة، أتقاني، وكذا إذا مات في شبكة لايقدر على التخلص منها، كفاية (قوله: أو إلقاء شيء) وكان يعلم أنها تموت منه. قال في المنح: أو أكلت شيئًا ألقاه في الماء لتأكله فماتت منه وذلك معلوم ط (قوله: فموته بآفة) أي جميع ما ذكر وهو الأصل في الحل كما مر".

(کتاب الذبائح،306/6،ط:سعید)

احسن الفتاوٰی میں ہے:

"عنوان:پانی میں دوا ڈالنے سے مچھلی مر گئی تو حلال ہے؟

سوال:مچھلی کو پکڑنے کی غرض سے اگر پانی میں کوئی  ایسی دوا ڈالی دی گئی جس سے مچھلی کی موت واقع ہوگئی تو اس صور ت میں مچھلی کا کھانا حلال ہے یا حرام؟

جواب:ایسی مچھلی حلال ہے۔حوالہ مذکورہ بالا۔"

(کتاب الصید والذبائح،390/3،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100553

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں