بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کزن کو زکوۃ کی رقم سے گھر خرید کردینا


سوال

میرا ایک کزن جو بچپن سے ہمارے ساتھ ہے ،اب اس کی شادی ہوگئی ہے اور ایک بچہ بھی ہے ،اس کی اتنی آمدنی  بھی نہیں ہے کہ وہ کرایہ دے کر مکان لے لے ،تو کیا میں اس کو زکوۃ کی رقم ملا کر گھر خرید کردے سکتا ہوں ؟

جواب

واضح رہے کہ رشتہ داروں( کزن وغیرہ ) کو زکوۃ دینا نہ صرف جائز بلکہ صلہ رحمی کی وجہ سے زیادہ مستحسن  ہے ،بشرط یہ کہ وہ رشتہ دار مستحقِ زکوۃ ہو،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کے کزن  کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے مساوی نقدرقم یا مالِ تجارت موجود نہیں ہے اور نہ ہی ضروریاتِ زندگی سے زائد اتنی مالیت کا سامان  اس کے پاس موجود ہےاور نہ ہی سید خاندان سے ہو، تو  اس صورت میں سائل اپنے مذکورہ  کزن کو زکاۃ دے سکتاہے،چاہے رقم کی صورت میں دے یا اس کو ملاکر گھر خرید کر کزن  کو اس گھر کا مالک بنادے ، نیز اس میں دوہرا اجر (یعنی ادائیگی  زکاۃ  کے ساتھ ساتھ صلہ رحمی  کااجر بھی) ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(ولا) إلى (من بينهما ولاد)۔۔۔۔(قوله: وإلى من بينهما ولاد) أي بينه وبين المدفوع إليه؛ لأن منافع الأملاك بينهم متصلة فلا يتحقق التمليك على الكمال هداية والولاد بالكسر مصدر ولدت المرأة ولادة وولادا مغرب أي أصله وإن علا كأبويه وأجداده وجداته من قبلهما وفرعه وإن سفل بفتح الفاء من باب طلب والضم خطأ؛ لأنه من السفالة وهي الخساسة مغرب كأولاد الأولاد وشمل الولاد بالنكاح والسفاح فلا يدفع إلى ولده من الزنا ولا من نفاه كما سيأتي، وكذا كل صدقة واجبة كالفطرة والنذر والكفارات، وأما التطوع فيجوز بل هو أولى كما في البدائع، وكذا يجوز خمس المعادن؛ لأن له حبسه لنفسه إذا لم تغنه الأربعة الأخماس كما في البحر عن الإسبيجابي، وقيد بالولاد لجوازه لبقية الأقارب كالإخوة والأعمام والأخوال الفقراء بل هم أولى؛ لأنه صلة وصدقة."

(کتاب الزکاۃ،باب مصرف الزكاة والعشر،ج:2،ص:346،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"والأفضل في الزكاة والفطر والنذر الصرف أولا إلى الإخوة والأخوات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأعمام والعمات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأخوال والخالات ثم إلى أولادهم ثم إلى ذوي الأرحام ثم إلى الجيران ثم إلى أهل حرفته ثم إلى أهل مصره أو قريته كذا في السراج الوهاج."

(کتاب الزکاۃ،الباب السابع في المصارف،ج:1،ص:190،ط:دار الفکر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144504102320

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں