بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کورٹ میں جھوٹ بول کر کسی کی میراث کا حصہ لینا


سوال

ایک شخص وراثت کے حصول کے لیے کورٹ کے ذریعے اپنے آپ کو کسی کا بھائی ثابت کرے جب کہ حقیقت میں وہ شخص اس کا سسر ہو اور کورٹ کے ذریعے اپنے سسر کو بھائی بتایا تاکہ اس  بھائی کی جو کہ اصل میں سسر ہے اس کو وراثت ملے اور کورٹ نے اس کو وراثت دے بھی دی حالانکہ وہ شخص اس کا سسر ہے تو کیا یہ شرعاً جائز ہے؟

جب کورٹ نے سسر کو اس کا بھائی قرار دے دیا تو اس اعتبار سے دونوں بھائی ہوئے تو کیا بھائی کا بھتیجی سے نکاح درست ہوگا یا نہیں ؟کورٹ کے کاغذات منسلک  ہیں جس میں اس شخص کو بھائی کی وراثت میں حصہ دے دیا گیا ہے۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر واقعتًا  مذکورہ شخص  اس مرحوم کا بھائی نہیں ہے اور کورٹ کے سامنے  اپنے آپ کو اپنے سسر کا بھائی ظاہر کیا ہے؛ تاکہ وراثت میں سے حصہ لے سکے اس کا  یہ  عمل کئی کبیرہ  گناہوں کا مجموعہ  ہے ، اس میں  جھوٹ اور  دھوکابھی  ہے ،پھر  اس جھوٹ کے ذریعے سے اصل ورثاء کی حق تلفی کرتے ہوئے ان  کے حق پر قبضہ کرنابھی  ہے ،نیزاپنی ولدیت میں حقیقی والد کے علاوہ کسی او ر کا نام  لکھوایا گیا ہے۔  یہ تمام کبیرہ گناہ ہیں۔ اس شخص پر ان سب گناہوں سے توبہ کرنااور قبضہ کیا ہوا مال واپس کرنا شرعالازم   ہے ۔نیز کورٹ کا اس شخص کو بھائی قرار دینے سے حقیقت میں یہ اس کا بھائی نہیں بن گیا اور  نہ ہی بیوی اس کی بھتیجی بنی ،لہذا اس کا نکاح اپنی بیوی سے قائم ہے ۔ 

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»". (مشكاة المصابيح، 1/254، باب الغصب والعاریة، ط: قدیمی)

و فیه أیضًا: 

"و عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه".

(1/266، باب الوصایا، الفصل الثالث،  ط: قدیمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100581

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں