بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کورٹ میں نکاح کے بعد دوبارہ نکاح کرنے کا حکم


سوال

میری بیٹی  کے پا س ایک رشتہ  آیاتھا ،میری بیٹی اور  وہ لڑکا  آپس میں ایک دوسرے کو پسند  کرتے تھے، لیکن  لڑکی   کے  والد صاحب  کویہ  رشتہ  منظور  نہیں تھا ، اس لیے منع کردیا ، اس کے بعد لڑکی  نے گھر والوں کو بتائے  بغیر کور ٹ  میں   اس  لڑکے  کے ساتھ  شادی کر لی،  کورٹ میں شادی کرتے وقت لڑکے   والوں کی طرف سے    لڑکے کی والدہ  اور پڑوس  کے آدمی  اور لڑکے  کے ایک بھائی  شامل تھے ، کو رٹ  میں  شادی کےبعد  لڑکی نے اپنے گھر وا لوں کو فون  پر اطلاع  دی کہ اس نے کورٹ  میں  شادی  کرلی ہے ،یہ سننے کے بعد لڑکی  کے گھر والے  لڑکے  کے گھر پہنچ  گئے اور لڑکی  کو اپنے  گھر  پر اسی دن لے آئے تھے،اب  ہم  لڑکی   والے   اپنی  بیٹی کی شادی لوگوں  کے مجمع  میں علی الاعلان کرنا چاہتے ہیں  ، تاکہ  لڑکی  والوں  کی عزت  رہ جائے ،  لہذا  ہمیں  بتادیں کہ ہم اب دوبارہ نکاح کرا سکتے  ہیں یا نہیں ؟ اگر  ہم نیا نکاح کراتے  ہیں  تو سابقہ نکاح کاکیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ  میں والد کی اجازت کے بغیر  کورٹ میں کیا گیا نکاح اگر عاقدین اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں کیا گیا تھا تو وہ منعقد ہوگیا تھا،اب اگرلڑکی کے گھر والے دوبارہ اعلانیہ نکاح پڑھواناچاہتے ہیں  تو یہ  جائز ہے، اصل نکاح تو وہ ہے جو پہلے ہوا ہے،  دوسرا  والا   محض دکھانے کے  لیے ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(فنفذ نكاح حرة مكلفة  بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا".

(کتاب النکاح، باب الولی،ج:3، ص: 55/56،ط:سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزوج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض".

(کتاب النکاح، فصل: واما ولایۃ الندب والاستحباب۔۔۔،ج:2، ص: 513،ط:المکتبۃ الوحیدیۃ پشار)

در مختار میں ہے:

"(وينعقد)متلبسا( بايجاب)من أحدهما (وقبول) من الآخر."

(كتاب النكاح، ج: 3، ص: 9، ط: سعيد)

در مختار میں ہے:

"وفي الكافي: جدد النكاح بزيادة ألف لزمه ألفان على الظاهر وفي الشامي: حاصل عبارة الكافي: تزوجها في السر بألف ثم في العلانية بألفين ظاهر المنصوص في الأصل أنه يلزم الألفان ويكون زيادة في المهر، وعند أبي يوسف المهر هو الأول لأن العقد الثاني لغو. فيلغو ما فيه. وعند الإمام أن الثاني وإن لغا لايلغو ما فيه من الزيادة".

 (كتاب النكاح، باب المهر، مطلب في أحكام المتعة، ج: 3، ص: 112، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308100421

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں