بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کورٹ کی خلع


سوال

میری بیٹی نے فیملی کورٹ سے خلع حاصل کرلی ہے، اس خلع کی شرعی حیثیت کیا ہے، گویا شرع کی نظر میں خلع ہوگی یا نہیں؟ ان کا وکیل رجسٹرار سے زبانی کہہ  گیا تھا کہ لڑکے کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس کے بعد کسی پیشی پر ان کا وکیل نہیں آیا، اب کورٹ نے خلع دے دی ہے، معلوم یہ کرنا ہے کہ اس کی کیا شرعی حیثیت ہے؟

جواب

خلع بھی دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس کے لیے جانبین یعنی میاں بیوی کی رضا مندی ضروری ہے، اگر عدالت شوہر کی رضامندی(خواہ زبانی یا تحریری) کے ساتھ  خلع کا فیصلہ کرتی ہے تو شرعاً خلع معتبر ہے اور اگر  شوہر کی رضا مندی کے بغیر خلع کا فیصلہ دے دیا ہے تو شرعاً یہ خلع معتبر نہیں ہوتا۔لہذا صورتِ مسئولہ میں  اگر واقعتًا لڑکے نے وکیل کو خلع قبول کرنے کا اختیار دیا تھا، اور اس  کے وکیل نے اس کی طرف سے رضامندی کا اظہار  کیا تو اس صورت میں خلع ہو گئی ہے، اب لڑکی اپنی عدت مکمل کرلے۔ اور اگر لڑکے نے وکیل کو یہ اختیار نہیں دیا تھا تو لڑکے سے اس کی تصدیق لی جائے، اس کے بعد ہی شرعی مسئلہ واضح طور پر بتایا جاسکتا ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول".

 (كتاب الطلاق، باب الخلع 3/441، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201596

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں