بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کورٹ میرج کے ذریعہ نکاح کرنے کی شرعی حیثیت


سوال

کیا کورٹ میرج کرنا جائز ہے ؟ کیا کورٹ میرج والا نکاح منعقد ہوجاتا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ بعض چیزیں از روئے شرع جائز ہونے کے باوجود شرعاً و عرفاً نامناسب ہوتی  ہیں،انہیں میں سے ایک کورٹ میرج بھی ہے،کیوں کہ کورٹ میرج کے ذریعہ کیا جانے والانکاح اکثر و بیشتر والدین/ ولی کی رضامندی کے بغیر خفیہ طور پر کیا جاتا ہے،حالاں کہ شریعت نے لڑکے، لڑکی کے لیے برابری کا رشتہ ڈھونڈنےاور نکاح کروانےکا اختیار والدین کو دے کر ان دونوں کو بہت سی نفسیاتی و معاشرتی الجھنوں سے بچایا ہے، اس لیے کسی واقعی شرعی مجبوری کے بغیر خاندان کے بڑوں کے موجود ہوتے ہوئے لڑکے یا لڑکی کا از خود آگے بڑھنا اور  کورٹ میرج کرناخدائی نعمت کی ناقدری ہے،نتیجۃً ایسی شادیاں بسا وقات  ناکام ہوجاتی ہیں اورعلیحدگی کی نوبت آجاتی ہے، لہذا کورٹ میرج شرعاً، عرفاً اور اخلاقاًنامناسب عمل ہے، جس سے گریزکرنا چاہیے، تاہم   اگر عاقل و بالغ لڑکا اور عاقلہ  بالغہ  لڑکی کورٹ میرج کے ذریعہ ولی کی اجازت کے بغیر  باقاعدہ گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کرکے کورٹ میں نکاح کرلے تو شرعًا وہ نکاح منعقد ہوجاتا ہے، البتہ رشتہ  برابری کا نہ ہونے  یا مقررہ مہر، مہر مثل سے کم ہونے کی صورت میں لڑکی کےولی کو اعتراض کا حق  ہوتا ہے اوراولاد ہونے سے پہلے پہلے تک ولی کورٹ کے ذریعہ نکاح ختم کراسکتا ہے۔

البحرالرائق میں ہے:

"(قوله ‌نفذ ‌نكاح ‌حرة مكلفة بلا ولي) ؛ لأنها تصرفت في خالص حقها وهي من أهله لكونها عاقلة بالغة ولهذا كان لها التصرف في المال ولها اختيار الأزواج، وإنما يطالب الولي بالتزويج كي لا تنسب إلى الوقاحة ولذا كان المستحب في حقها تفويض الأمر إليه والأصل هنا أن كل من يجوز تصرفه في ماله بولاية نفسه يجوز نكاحه على نفسه وكل من لا يجوز تصرفه في ماله بولاية نفسه لا يجوز نكاحه على نفسه، ويدل عليه قوله تعالى{حتى تنكح} أضاف النكاح إليها ومن السنة حديث مسلم «الأيم أحق بنفسها من وليها» وهي من لا زوج لها بكرا كانت أو ثيبا، فأفاد أن فيه حقين حقه وهو مباشرته عقد النكاح برضاها، وقد جعلها أحق منه ولن تكون أحق إلا إذا زوجت نفسها بغير رضاه."

(كتاب النكاح، باب الأولياء و الأكفاء في النكاح، ج:3، ص:117، ط:دار الكتاب الإسلامي)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض."

(کتاب النکاح، فصل ولایة الندب والإستحباب فی النکاح، ج:2، ص:247، ط: سعید)

فتح القدیرمیں ہے:

"لأن انتظام المصالح بين المتكافئين عادة، لأن الشريفة تأبى أن تكون مستفرشةً للخسيس، فلا بد من اعتبارها، بخلاف جانبها؛ لأن الزوج مستفرش فلا تغيظه دناءة الفراش."

( کتاب النکاح، باب الأولیاء والأکفاء، فصل في الکفاءۃ، ج:3، ص:293،  ط: دار الفکر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخراً، وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخراً أيضاً، حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك، ولكن للأولياء حق الاعتراض ... وفي البزازية: ذكر برهان الأئمة أن الفتوى في جواز النكاح بكراً كانت أو ثيباً على قول الإمام الأعظم، وهذا إذا كان لها ولي، فإن لم يكن صح النكاح اتفاقاً، كذا في النهر الفائق. ولا يكون التفريق بذلك إلا عند القاضي أما بدون فسخ القاضي فلا ينفسخ النكاح بينهما."

( کتاب النکاح، الباب الخامس في الأکفاء في النکاح، ج:1، ص:292،  ط: رشیدیه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144403100271

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں