بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

کورئیر کمپنی کا اپ فرنٹ دینے کے لیے پراڈکٹ کا کچھ حصہ کورئیر کمپنی کو بیچنے کا حیلہ


سوال

ہمارا آن لائن  کاروبار ہے، ہم  کسٹمر سے آرڈر آنے کے بعد  کورئیر کمپنیوں سے مال ان کو ڈیلیور کرواتے ہیں، کورئیر کمپنی   ہم سے پارسل ڈیلیور کرنے کے  طے شدہ چار جز لیتی ہے۔

کچھ کسٹمر  cod(کیش آن ڈلیوری) کی بنیاد پر سامان خریدتے ہیں، یعنی جب سامان ڈیلیور ہوگا، تب  وہ پیسے ادا کریں  گے، اور  کورئیر کمپنی  کاعام طریقہ یہی ہوتا ہے کہ  یہ پارسل پہنچا کر کسٹمر سے پیمنٹ وصول کرکے ہمیں پہنچادیتے ہیں اور اس کے سروس چارجز لیتے ہیں،   لیکن  اس پیمنٹ کے آنے میں  ہفتہ ، دس دن تک بھی لگ جاتا ہے۔ 

اب  ایک  کورئیر کمپنی ہے  جو ہمارا سامان ڈیلیور کرتی ہے، وہ یہ کہتی ہے  آپ کو کسٹمر سے پیسے کافی دنوں بعد ملتے ہیں،   ہم  آپ کو ستر فیصد پیسے فوری  ادا کردیتے  ہیں اور اس کی کچھ فیس لیں گے، جسے وہ  ”اپ فرنٹ فیس“ کا عنوان دیتے ہیں ، یہ فیس ڈلیوری چارجز کے علاوہ ہے، اس کے بارے میں ہم نے جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن سے فتویٰ لیا جو کہ منسلک ہے تو اس کے ناجائز ہونے کا حکم بتایا گیا، لہذا اس  سلسلہ میں ہم  کورئیر کمپنی سے  بات کی تو انہوں نے  اس کا   متبادل حل بتایا ہے۔(جس کا ایگریمنٹ منسلک ہے، جس میں مکمل تفصیل درج ہے، بطور خلاصہ چند نکات درج ذیل ہیں):

وہ طریقہ یہ ہے کہ:

1:            ہمارا (کیش آن ڈلیوری والا)  کسٹمر جب ہماری ویب سائٹ پر آکر ہماری پراڈکٹ کا آرڈ کرے گا تو آرڈر کنفرم ہونے کے بعد ہم اس  پراڈکٹ کو  جو کورئیر والے کے حوالہ کریں گے  تو ا س کا ستر فیصد ان کو   ڈسکاونٹڈ ریٹ پر فروخت کردیں گے، (ڈسکاؤنٹڈ ریٹ کا سلیب  منسلکہ ایگریمنٹ میں موجود ہے ، اور یہی ڈسکاؤنٹ کورئیر کمپنی  کا نفع ہے)، جس  کے عوض ہمیں فوری طور پر 70 فیصد کے  پیسے مل جائیں گے ، یوں وہ پراڈکٹ 70 فیصد کورئیر والے کی ملکیت ہوگی اور 30 فیصد ہماری ۔

2:          پھر  کورئیر  ڈلیوری والا وہ پروڈکٹ کسٹمر کو ڈلیور کردے گا ،جس میں ہمارے تیس فیصد کو ڈلیور کرنے پر وہ ڈلیوری چارجز بھی لے گا۔

3:          کسٹمر کو انوائس ہم  اپنے نام سے جاری کریں گے، اور  انوائس میں ہماری مفاہمت یہ ہوگی کہ  تیس فیصد میں ہم اصیل اور ستر فیصد میں  کورئیر والے کے وکیل ہونے کی حیثیت سے  ہم انوائس کررہے ہیں۔

اگر خدانخواستہ  راستہ میں نقصان ہوتا ہے تو وہ کورئیر والے کا ہوگا، 70 فیصد اپنی ملکیت کی وجہ سے اور 30 فیصد اجیر مشترک کی بنیاد پر۔

اگر پراڈکٹ واپس آتی ہے تو کورئیر والے ہمیں واپس کردیں گے، ہم اپنی رضامندی سے اس کو لے لیں گے، لیکن ہم نے اس کو ایگریمنٹ میں درج نہیں کیا۔

کیا اس طریقہ سے کام کرنا درست ہے، آپ کی تصدیق کے بعد ہم اس ایگریمنٹ میں دستخط کریں گے، براہ کرم جتنا جلدی ہوسکے راہ نمائی کردی جائے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں ایک ناجائز امر یعنی قرض پر ملنے والے سود کو فقہی قواعد و ضوابط کی حدود میں داخل کرنے کے لیے حیلہ استعمال کیا گیا ہے،یہ حیلہ مندجہ ذیل قباحتوں کی وجہ سے ناجائز ہے:

1)      مذکورہ حیلہ میں آپ کا اور کورئیر کمپنی کا اصل معاملہ پراڈکٹ کی منتقلی کا ہے، نہ آپ کا مقصود یہ ہے کہ پراڈکٹ کورئیر کمپنی کو بیچی جائےاور نہ ہی کورئیر کمپنی کو اس پراڈکٹ کے خریدنے سے کوئی غرض ہے، بلکہ بائع کو اپ فرنٹ کی رقم حاصل ہو جائے اورکورئیر کمپنی کو اس پر کچھ نفع مل جائے اس لیے یہ حیلہ اختیار کیا جا رہا ہے، لہذا یہ معاملہ سودی ہی ہے کیوں کہ عقود میں معانی  اور مقصود کا اعتبار ہوتا ہے الفاظ اور صورت کا اعتبار نہیں ہوتا۔

2)     کورئیر کمپنی والا 70 فیصد کا مالک ہونے کے بعد جب پارسل کسٹمر کو ڈلیور کرے گا تو اس کے لیے اس ڈلیوری کےعوض اجرت لینا جائز نہیں ہوگا کیوں کہ وہ خود اس پارسل کی ملکیت میں شریک ہے اور شریک  ہی کو اجیر بنانے سے اجارہ کا معاملہ باطل ہو جاتا ہے۔

3)      پراڈکٹ کی واپسی والا معاملہ خواہ اگریمنٹ میں نہیں لکھا گیا لیکن آپ کے اور کورئیر کمپنی والے کے درمیان یہ طے ہے کہ اگر کسٹمر کی طرف سے پراڈکٹ واپس ہوگی تو کورئیر کمپنی والا بھی آپ کو واپس کر دے گا، اور بیع میں اقالہ کی شرط لگا دینا بیع کو فاسد کردیتا ہے۔

4) اگر راستہ میں پراڈکٹ کورئیر کمپنی کی غفلت اور کوتاہی کے بغیر ضائع ہوجائے یا اس میں نقصان ہوجائے تو ہر شریک اپنے حصہ کے بقدر نقصان برداشت کرے گا،  کورئیر کمپنی کومکمل نقصان کا ذمہ دار بنانا درست نہیں ہے۔

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"والعبرة في ‌العقود ‌للمعاني دون الألفاظ".

(كتاب العتق، باب العتق على المال، 7/ 146، ط:دار المعرفة)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(ولو) استأجره (لحمل طعام) مشترك (بينهما فلا أجر له) ؛ لأنه لا يعمل شيئا لشريكه إلا ويقع بعضه لنفسه فلا يستحق الأجر".

وفي الرد:

"(قوله فلا أجر له) أي لا المسمى ولا أجر المثل زيلعي؛ لأن الأجر يجب في الفاسدة إذا كان له نظير من الإجارة الجائزة وهذه لا نظير لها إتقاني، وظاهر كلام قاضي خان في الجامع أن العقد باطل؛ لأنه قال: لا ينعقد العقد تأمل. (قوله؛ لأنه لا يعمل إلخ) فإن قيل: عدم استحقاقه للأجر على فعل نفسه لا يستلزم عدمه بالنسبة إلى ما وقع لغيره.

فالجواب أنه عامل لنفسه فقط؛ لأنه الأصل وعمله لغيره مبني على أمر مخالف للقياس فاعتبر الأول، ولأنه ما من جزء يحمله إلا وهو شريك فيه فلا يتحقق تسليم المعقود عليه؛ لأنه يمنع تسليم العمل إلى غيره فلا أجر عناية وتبيين ملخصا".

(‌‌كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، 6/ 60، ط: سعيد)

البنایہ شرح الہدایہ میں ہے:

"لأن القياس أن لا يصح هذا البيع أصلا كما قال زفر: لأنه بيع شرط فيه إقالة فاسدة، وهي إقالة معلقة بالشرط، والبيع ‌بشرط ‌الإقالة الصحيحة باطل فبشرط الإقالة الفاسدة أولى".

(‌‌كتاب البيوع، باب خيار الشرط، 8/ 54، ط: دار الكتب العلمية)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وهؤلاء قوم احتالوا على انتهاك محارم الله، بما تعاطوا من الأسباب الظاهرة التي معناها في الباطن تعاطي الحرام. وقد قال الفقيه الإمام أبو عبد الله بن بطة، رحمه الله: حدثنا أحمد بن محمد بن مسلم، حدثنا الحسن بن محمد بن الصباح الزعفراني، حدثنا يزيد بن هارون، حدثنا محمد بن عمرو، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "لا ترتكبوا ما ارتكبت اليهود، فتستحلوا محارم الله بأدنى الحيل

وهذا إسناد جيد".

(سورة الأعراف، 3/ 493، ط: دار طيبة للنشر والتوزيع)

درر الحكام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"حصة أحد الشريكين في حكم الوديعة في يد الآخر أي أن حصة أحدهما في المال المشترك أمانة في يد الشريك الآخر (رد المحتار)".

[الكتاب العاشر الشركات، الفصل الثاني في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة، المادة (1087): حصة أحد الشريكين في حكم الوديعة في يد الآخر، 3/ 48، ط: دار الجيل]

الدر المختار میں ہے:

"(وهو) أن الشريك (أمين في المال فيقبل قوله) بيمينه (في) مقدار الربح والخسران والضياع و (الدفع لشريكه ولو) ادعاه (بعد موته) كما في البحر مستدلا بما في وكالة الولوالجية".

وفي الرد:

"(قوله: والضياع) أي ضياع المال كلا أو بعضا ولو من غير تجارة ط".

(كتاب الشركة، 4/ 319، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604102631

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں