بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کنٹری بیوٹری فنڈ کا حکم


سوال

 میں ایک ا سکول ٹیچر ہوں، میری تقرری 10/11/2022 کو ہوئی تھی، کے پی حکومت نے سول سرونٹ ایکٹ 1973ء میں ترمیم کر کے کنٹری بیوٹری فنڈ کی پالیسی نافذ کر دی ہے۔ جس کی رو سے 2022ء کے بعد بھرتی ہونے والے ملازمین کو پینشن اور گریجوٹی نہیں ملے گی، بلکہ سی پی فنڈ ملے گا ،جس میں ہر ماہ ملازم کی تنخواہ سے مخصوص رقم کاٹی جائے گی ، اس میں حکومت بھی کچھ حصہ ڈالے گی، اور پھر اس رقم کو کسی بھی کمپنی کے ساتھ انویسٹ کرے گی، حکومت کی طرف سے جن کمپنیوں کے نام بتاۓ گئے ہیں  ان میں اسلامک کمپنی پلان بھی ہے،ریٹائرمنٹ کے بعد یہ فنڈ ملازم کو ملے گا ، یک مشت پنشن اور ماہانہ پنشن نہیں ملے گی۔ سی پی فنڈ کے فارم  میں 12 کمپنیوں کا نام دیا  گیاہے، جو ذیل میں مذکور ہیں ۔

اب مئلہ یہ ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سود کے زمرے میں آتا ہے، اس کی شرعی اور اسلامی حیثیت کے معاملے میں مختلف علماء کرام کی مختلف آراء آرہی ہیں، براہ کرم اس پر مجھے شرعی حکم بتادیں ۔

NBP Fund Management Limited. 2.AL Habib Asset Management Limited. 3.UBL Fund Managers Limited(1) 4.Alfalah GHP Investment Management Limited. 5.MCB-Arif Habib Savings and Investments Limited. 6.National Investment Trust Limited. 7.Faysal Asset Management Limited. 8.HBL Asset Management Limited. 09.JS Investments Limited 10.Al Meezan Investment Management Limited. 11.ABL Asset Management Company Limited. 12.Atlas Asset Management Limited.

جواب

واضح رہے کہ" کنٹری بیوٹری فنڈ  "بھی "جی پی فنڈ "کی طرح کا ہی فنڈ ہے ،جس میں حکومت  ہر ماہ ملازم کی تنخواہ سے  ایک طے شدہ مخصوص  شرح کے مطابق رقم کاٹ لیتی ہے اور    اس میں  اپنی طرف سے  اضافہ کرکے اس رقم کو کسی بھی کمپنی کے ساتھ انویسٹ کرتی ہے،مثلاً:اگر ایک ملازم کی تنخواہ پچاس ہزار  ہے، تو اس فنڈ میں پانچ ہزار ملازم اور سات ہزار تک حکومت جمع کرتی ہےاور پھراس فنڈ کو سرمایہ کاری میں لگایا جاتاہے، جس سے بعد میں ریٹائرمنٹ کے وقت ملازمین کو جمع شدہ رقم اضافے کے ساتھ دی جاتی ہے۔اگر صورت مسؤلہ میں ملازم کی تنخواہ سے کٹوتی  جبری ہوتواس کا حکم یہ ہے کہ ملازمین کے لیے یہ رقم لینا شرعاً جائز ہوتا ہے ،کیوں کہ  یہ  رقم در حقیقت ملازم کی تنخواہ ہی کا حصہ ہوتاہے ،نیزملازم نے اپنی رضامندی سے یہ رقم جمع نہیں کروائی، لہٰذا ملازم کے ليے اس رقم کا لینا اوراسے اپنے استعمال میں لانا جائز ہے، ملازم کے لیے یہ رقم شرعاً سود نہیں، لہٰذا آپ کے لیے  مذکورہ فنڈ کی  رقم وصول کرکے  اسے اپنےاستعمال میں لانا  جائز اور درست ہے۔

اور اگر یہ کٹوتی اختیاری ہے تو اس صورت میں تنخواہ سے جتنی رقم لگائی گئی ہے اور ادارے والوں سے جتنی رقم ملائی ہے وہ دونوں رقم لینا جائز ہے،البتہ ان دونوں رقوم پر انشورنس کمپنی نے نفع کے نام سے جو اضافہ کیا ہے وہ سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے،اس کا لینا جائز نہیں ہے۔اگر صورت حال اس کےعلاوہ ہوتو صورت ِحال کی وضاحت کرکے دوبارہ معلوم کیاجاسکتاہے۔

تبيين الحقائق میں ہے:

"(والأجرة لا تملك بالعقد بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن منه)...

أي لا تملك الأجرة بنفس العقد سواء كانت الأجرة عينا أو دينا، وإنما تملك بالتعجيل أو بشرط التعجيل أو باستيفاء المعقود عليه وهي المنفعة أو بالتمكن من استيفائه بتسليم العين المستأجرة في المدة."

 (كتاب الإجارة،107/5، ط: المطبعة الکبری الأميرية)

الجوهرة النيرة میں ہے:

"(والأجرة لا تجب بالعقد) أي لا يجب أداؤها؛ لأن العقد ينعقد شيئا فشيئا على حسب حدوث المنافع، والعقد معاوضة، ومن قضية المعاوضة المساواة، وإذا استوفى المنفعة ثبت الملك في الأجرة لتحقق التسوية وكذا إذا شرط التعجيل، أو عجل من غير شرط...
" (قوله: ويستحق بأحد معان ثلاثة إما أن يشترط التعجيل، أو بالتعجيل من غير شرط أو باستيفاء المعقود عليه)."

 (كتاب الإجارة،الأجير المشترك والأجير الخاص،266/1، ط: المطبعة الخیریة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501102457

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں