بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کورٹ میں شادی کرنا


سوال

 میں نے ایک مجبوری کی وجہ سے کورٹ میں شادی کی تھی ، مجبوری یہ تھی کہ پہلے لڑکی کے گھر والے راضی تھے لڑکی بھی راضی تھی ، لڑکی کی امی خود میری بات کرواتی تھی لڑکی سے ، میری بھی لڑکی سے کافی اٹیچمنٹ ہو گئی پھر انہوں نے اچانک انکار کر دیا کہ ہم اپنے بھانجے کو رشتہ دے رہے ہیں ، لڑکی کی مرضی میری طرف تھی اور وہ لڑکی پر دباو ڈال کر بھانجے سے شادی کرنا چاہتے تھے ،پھر میں نے اور لڑکی نے کورٹ میرج کر لی وہاں وکیل کےتوسط سے شرعی نکاح بھی پڑھوایا گیا اور قانونی تقاضے بھی پورے کیے گئے ، پہلے پہلے لڑکی کے گھر والے بہت ناراض تھے لیکن میرا پہلا بیٹا ہوا تو انہوں نے کہا کہ بس اب اسکی اولاد ہو گئی ہے اب وہ جانے اور اس کی زندگی ، ہم پوری کوشش کر رہے ہیں صلح کی ، میں الحمد للہ پانج وقت کا نمازی ہوں اور میری بیوی بھی پانچ وقت کی نمازی ہے ۔لیکن میں اللہ سے ڈرتا رہتا ہوں بہت کہ پتہ نہیں لڑکی کے والدین راضی نہ ہوئے تو کیا میں گنہگار رہوں گا ؟ اور میرا کیا بنے گا ؟ میں اللہ سے توبہ کرتا ہوں میں نے غلط کیا لیکن میں نے شادی کے بعد اپنی ذمہ داریاں ہر طریقے سے احسن طور پر نبھائیں ،لیکن قرآن میں پڑھا ہے کہ پاک عورتوں کےلیے پاک مرد اور گندی عورتوں کے لیے ناپاک مرد ، ڈر یہ رہتا ہے کہ میں کہیں گندے مردوں میں تو نہیں ، حالانکہ میں اپنی بیوی کو جانتا ہوں میرے خاندان سے ہے وہ بہت اچھی لڑکی ہے ، اسکا کردار مجھ سے شادی سے پہلے بہت اچھا تھا ،رہنمائی فرما دیں ۔ 

جواب

واضح رہے کہ اگر عاقلہ بالغہ  لڑکی اپنے والدین کی رضامندی کے بغیر اپنا نکاح خود کرے تو شرعاً ایسا نکاح منعقد ہوجاتا ہے،اگرچہ والدین کی رضامندی کے بغیر نکاح کرنا شرعًا و اخلاقًا پسندیدہ نہیں ہے، پھر  اگر لڑکی نے  ولی کی اجازت کے بغیرغیر کفومیں نکاح کیا تو اولاد ہونے سے پہلے پہلے لڑکی کے اولیاء کوعدالت سے رجوع کرکے اس نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اور اگر کفو میں نکاح کیا ہے توپھر لڑکی کے اولیاء   کو وہ نکاح  فسخ کرنے کا اختیار  بھی نہیں ہوتا۔

صورتِ  مسئولہ میں سائل نے جو نکاح اپنے بیوی کے  والدین کو بتلائے بغیر  کورٹ میں نکاح  کیا ہے،اگر وہ نکاح دوگواہوں کی موجودگی میں ہواتھااور زبانی ایجاب وقبول کرایاگیاتھا،صرف تحریری دستخط نہیں ہوئے تو وہ نکاح  شرعاًمنعقد ہوچکا ہے،لڑکے اور لڑکی نے جو مذکورہ اقدام  گھر والوں سے چھپ  کر کیا ہیں ، وہ نہیں کرنا چاہیے تھا،تاہم اب لڑکی کے والدین کو راضی کرنےکی کوشش جاری رکھیں ،لڑکی کے گھر والوں کو بھی چاہیے کہ لڑکا جب خاندان کا ہے اوراس نے لڑکی کو خوش رکھاہواہےاور اب اولاد بھی ہوگئی ہے تو لڑکی کو معاف کرکے اس رشتے کو قبول کرلیں،معاف کردینا اللہ کو بہت زیادہ پسند ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلا بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض."

(كتاب النكاح، فصل ولاية الندب والاستحباب فى النكاح، ج:2، ص:247، ط:دارالكتب العلمية)

الفتاوى الهندية  میں ہے:

" فإذا تزوجت المرأة رجلًا خيرًا منها؛ فليس للولي أن يفرق بينهما فإن الولي لايتعير بأن يكون تحت الرجل من لايكافئوه، كذا في شرح المبسوط للإمام السرخسي".

(کتاب النکاح،ج:1ص: 290،ط:دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144402100990

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں