بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرونا وائرس کی وجہ سے نماز میں مقتدیوں کے درمیان فاصلہ رکھنا


سوال

ہماری طرف ایک مسجد میں موجودہ حالات کی وجہ سے اس طرح جماعت سے نماز ہوئی کہ ایک مقتدی دوسرے مقتدی سے ایک آ دمی کے برابر فاصلے سے کھڑا تھا تو یہ طریقہ نماز کا درست ہے ؟

جواب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوں کے درمیان خالی جگہ پر کرکے مل کر کھڑے ہونے کی تاکید فرمائی ہے،  ایک حدیث میں صفوں کی درستی کو جس میں خلا پُر کرنا بھی شامل ہے  نماز کا حسن قراردیا ہے۔ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوں کے درمیان خالی جگہ نہ چھوڑ نے والوں کے لیے مغفرت کی دعا بھی فرمائی ہے۔ اور بعض روایات میں صفوں کے درمیان خلا چھوڑنے پر ناراضی کا اظہار بھی فرمایا۔ چناں چہ عام حالات میں صفوں کے درمیان خلا رکھنا مکروہِ تحریمی ہے، اور مل کر کھڑا ہونا سنت متوارثہ ہے۔ 

کرونا وائرس کی وجہ سے حفظانِ صحت کے اصولوں کی رو سے  حکومتی احکامات  اور مسلمان دین دار ، تجربہ کا رڈاکٹر وں کے مشوروں کے مطابق اگر  مسجد کی حدود کے اندر  فاصلہ رکھ کر نماز پڑھ لی جائے تو  نماز  ادا ہوجائے گی، تاہم فاصلہ رکھ کر کھڑے ہونا سنتِ متواترہ کے خلاف ہے، سرکار  کی طرف سے  پابندی ہو  تو  ضرورۃً  اس طرح کھڑے ہونے کی گنجائش ہے۔

یہ ملحوظ رہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کوئی مرض بذاتِ خود متعدی نہیں ہوتا، بلکہ سبب کے درجے میں اگر اللہ تعالیٰ چاہیں تو دوسرے انسان کو مرض لگتا ہے ورنہ نہیں لگتا، اسباب کے درجہ میں احتیاط کرنا توکل اور منشاءِ شریعت کے خلاف نہیں ہے، لہٰذا جن مریضوں میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوجائے انہیں مساجد میں جماعت میں شریک نہیں ہونا چاہیے، لیکن کسی خاص مرض کے ہر حال میں دوسرے کو منتقل ہونے کا عقیدہ نہیں ہونا چاہیے۔

حضرت بنوری رحمہ اللہ معارف السنن میں لکھتے ہیں :

"وینبغي أن یأمرام بأن یتراصوا ویسدوا الخلل ویقف وسطًا ... الخ. وظاهره الندب أو السنیة لا الوجوب". ( معارف السنن، کتاب الصلاة، باب ماجاء في إقامة الصفوف: ٢/ ٢٩٩)

البحرالرائق لابن نجیم میں ہے:

"وينبغي للقوم إذا قاموا إلى الصلاة أن يتراصوا ويسدوا الخلل ويسووا بين مناكبهم في الصفوف، ولا بأس أن يأمرهم الإمام بذلك، وينبغي أن يكملوا ما يلي الإمام من الصفوف، ثم ما يلي ما يليه، وهلمّ جرًّا، وإذا استوى جانبا الإمام فإنه يقوم الجائي عن يمينه، وإن ترجح اليمين فإنه يقوم عن يساره، وإن وجد في الصف فرجةً سدّها وإلا فينتظر حتى يجيء آخر كما قدمناه، وفي فتح القدير وروى أبو داود والإمام أحمد عن ابن عمر أنه صلى الله عليه وسلم قال: «أقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب وسدوا الخلل ولينوا بأيدي إخوانكم ولاتذروا فرجات للشيطان، ومن وصل صفًّا وصله الله ومن قطع صفًّا قطعه الله»". ( البحرالرائق کتاب الصلاۃ باب الامامۃ ۱/۳۷۵ دارالکتاب العربی )

حاشیه الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"ومن سنن الصف التراص فيه والمقاربة بين الصف والصف والاستواء فيه قوله: "استووا" أي في الصف قوله: "تستو" بحدف الياء جواب الأمر وهذا سر علمه الشارع صلى الله عليه وسلم كما علم أن اختلاف الصف يقتضي اختلاف القلوب قوله: "أقيموا الصفوف" أي عدلوهها قوله: "وحاذوا بين المناكب" ورد كأن أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه قوله: "وسدوا الخلل" أي الفرج روى البزار بإسناد حسن عنه صلى الله عليه وسلم: "من سد فرجة في الصف غفر له". (حاشیه الطحطاوی علی مراقی الفلاح کتاب الصلاۃ باب الامامۃ ٣٠٦ دارالكتب العلميه)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201231

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں