بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کرونا وائرس کی وجہ سے داڑھی کاٹنے والے کی (گھر میں) اقتدا کا حکم


سوال

 جب کہ کورونا وبا  پھیلی ہوئی ہے،  اس وجہ سے جو لوگ گھر سے نہیں نکل رہے ہیں،  کیا وہ گھر میں ہی اپنی جماعت کراسکتے ہیں؟  اگر گھر میں کوئی حافظِ قُرآن موجود ہو،  لیکن اُس کی داڑھی نہ ہو اور وہ بالغ ہو تو جماعت پڑھا سکتا ہے؟

جواب

پہلی بات تو  یہ  ہے  کہ     جس شخص میں  کرونا وائرس موجود نہ ہو  اسے  وہم  کا شکار نہیں ہونا چاہیے، اور محض   وہم  و  شک  کی بنا پر مسجد کی  جماعت کی نماز ترک کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

اور   اگر  کسی مریض کے بارے میں وائرس کی تشخیص ہوجائے یا مسلمان، دین دار، ماہر اطباء کے بقول اس میں کرونا وائرس کی علامت موجود ہو اس کے لیے مرض کی وجہ سے مسجد کی  جماعت چھوڑنے کی اجازت ہے؛  لہٰذا وہ گھر میں نماز پڑھے۔

پھر اگر گھر میں جماعت سے نماز ادا کرنے کا  انتظام کرنا ممکن ہو تو جماعت سے نماز ادا کرنے کی ہی کوشش کرنی چاہیے، اور کوشش کی جائے کہ کسی با شرع آدمی کو امام بنا کر اُس کی اقتدا  میں نماز ادا کی جائے، لیکن اگر ایسا کوئی با شرع آدمی موجود نہیں ہے تو بامر مجبوری ڈاڑھی کاٹنے والے کے  پیچھے نماز  ادا  کر لی جائے۔

الحمد للہ ہمارے ملک اور اکثر اسلامی ممالک میں مساجد میں پنج وقتہ نماز اور جمعہ وغیرہ کی جماعت اہتمام سے کی جارہی ہے، اس لیے اس وقت گھروں میں باجماعت نماز ادا کرنے کا معمول بنانا درست نہیں ہے۔

''الدر المختار '' میں ہے:

''و أما الأخذ منها وهي دون ذلك كما فعله بعض المغاربة و مخنثة الرجال فلم يبحه أحد، و أخذ كلها فعل يهود الهند و مجوس الأعاجم''. (٢/ ٤١٨، ط: سعيد)

وفیه أیضاً:

''صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة''.

و في الشامية:

''(قوله: نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لاينال كما ينال خلف تقي ورع''.

(شامي: ١/ ٥٦٢، ط: سعيد)

طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

وکره إمامة الفاسق العالم لعدم اهتمامه بالدین، فتجب إهانته شرعاً، فلایعظم بتقدیمه للإمامة … ومفاده کون الکراهة في الفاسق تحریمیة".

(الطحطاوي علی المراقي، الصلاة، فصل في بیان الأحق بالإمامة، دارالکتاب ۳۰۳)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202287

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں