بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کورونا وائرس کے سبب وفات پانے والے کے غسل، کفن اور جنازے کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص کرونا وائرس کی وجہ سے انتقال کرجائے تو اس کے غسل ، کفن اور نماز جنازہ  و دفن کا کیا  حکم  ہے؟

جواب

                                  ہر مذہب اورشائستہ قانون، انسان کو حقوق دیتا ہے، البتہ اسلام کی خاصیت یہ ہے کہ اس نے انسان کو جوحقوق عطاکیے ہیں، ان کادائرہ بہت وسیع ہے، چنانچہ عام طور پر انسان کی پیدائش سے اس کے حقوق کا آغاز  اورموت پر اس کےحقوق ختم سمجھے جاتے ہیں، مگر دینِ اسلام میں بچہ جب شکمِ مادر میں ہوتا ہے، بلکہ عملِ تخلیق سے بھی پہلےاس کے حقوق کاآغاز ہوجاتا ہے اور وفات کے بعد بھی اس کے حقوق کاسلسلہ جاری رہتا ہے۔ ان حقوق میں سے غسل،کفن ،جنازہ اور دفن بھی ہیں۔

                              یہ چاروں حقوق جس طرح شریعت کے عطاکردہ ہیں،اسی طرح آئینِ پاکستان بھی ان کو تحفظ فراہم کرتا ہے، مثلاً : آئینِ پاکستان کے تحت شرفِ انسانی قابلِ حرمت ہے(دفعہ ۴۱)، ہرانسان کواپنے مذہب کی پیروی اوراس پر عمل کرنے کی اجازت ہے(دفعہ ۲۰)، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایساماحول فراہم کرے کہ مسلمان قرآن وسنت کے مطابق اپنی زندگی بسرکرسکیں(دفعہ ۳۱) ، ملکی دستور کے علاوہ اقوام ِمتحدہ کا انسانی حقوق سے متعلق عالمی منشور بھی ان حقوق کی تائید کرتا ہے۔

کرونا وائرس وغیرہ کی وجہ سے جاں بحق افراد کے لیے غسل، تکفین، جنازہ اور تدفین کا حکم:

جو مسلمان کرونا وائرس و دیگر کسی وبائی مرض میں وفات پاجائیں ان کے بارے میں مسلمانوں پر درج ذیل ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں:

1۔ میت کو سنت طریقے کے مطابق غسل دینا:

•  دیگر اموات کی طرح اس میت کو بھی پانی سے سنت طریقے کے مطابق غسل دینا عام مسلمانوں کے ذمہ فرض کفایہ ہے، مسح و  تیمم کرانا جائز نہیں۔

•  غسل کے پانی میں جراثیم کُش پاک ادویات کو بھی ملایا جاسکتا ہے۔

•  میت کا قریبی رشتہ دار اسے غسل دینے کا زیادہ حق دار ہے۔

•  اگر کسی وجہ سے میت کے قریبی رشتہ دار یا عام مسلمانوں کو اس بات کی اجازت نہ دی جائے  کہ وہ میت کو غسل دیں تو میت کو پانی سے غسل دینا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے، اگر خدانخواستہ وہ اس ذمہ داری کو  پورا نہ کرے  تو گناہ گار ہوگی۔

•  اگر طبی ماہرین ایسے مریض کو غسل دینے کے لیے مخصوص قسم کا لباس پہننے کو ضروری قرار دیتے ہوں تو احتیاطی  تدبیر کے طور پر اس کا اہتمام کرنا چاہیے، اگر عوام اس کا انتظام نہ کرسکتی  ہو تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ اشیاء فراہم کرے۔

2۔ میت کو مسنون کفن دینا:

•  میت کو غسل دینے کے بعد کفن دینا فرضِ کفایہ ہے، اگر میت کو کفن دیے بغیر دفن کردیا تو جن مسلمانوں کو معلوم تھا اور انہوں نے میت کو کفن نہیں پہنایا وہ سب گناہ گار ہوں گے، لہذا کورونا کے مرض میں وفات پانے والے افراد کو بھی کفن دینا ضروری ہوگا۔

•  مرد کا مسنون کفن تین کپڑوں پر اورعورت کامسنون کفن پانچ کپڑوں پر مشتمل ہوتاہے ۔

• اگر مرد کو دو کپڑوں (ازار اور لفافہ) اور عورت کو تین کپڑوں (خمار ،ازار اورلفافہ)میں کفن دیا جائے تب بھی کافی ہے۔

• مسنون کفن کے بعد اگر میت کو احتیاطی تدبیر کے طور پر پاک پلاسٹک وغیرہ میں لپیٹا جائے تو شرعاً کوئی حرج نہیں ۔

3۔ میت کی نماز جنازہ ادا کرنا:

•  مسلمان میت کی نمازِ جنازہ پڑھنا مسلمانوں پر فر ضِ کفایہ ہے، اگر میت کو نماز جنازہ پڑھے بغیر دفن کردیا تو جن مسلمانوں کو معلوم تھا اور انہوں نے نماز جنازہ نہیں پڑھی وہ سب گناہ گار ہوں گے۔

•  جنازہ  کی نماز صحیح ہونے کے لیے میت کا امام کے سامنے موجود ہونا شرط ہے، اس لیے جنازہ پڑھتے وقت میت کو امام کے سامنے رکھاجائے ،امام اور جنازے کے درمیان کوئی چیزحائل نہ ہو۔

•  امام اور جنازہ کے درمیان دو صف سے زیادہ فاصلہ نہ ہو۔

(عالمی ادارہ صحت (WHO) کی ہدایات (جاری کردہ 24 مارچ 2020ء)کے مطابق بھی کرونا وائرس کی وجہ سے فوت شدہ شخص سے مرض کے متعدی ہونے کا ثبوت نہیں ملتا )۔

•  اگر جنازے کے دوران مقتدی دائیں بائیں فاصلے سے کھڑے ہوں تو نماز کراہت کے ساتھ ادا ہو جائے گی۔

4۔ میت کی تدفین کرنا:

•  میت کو دفن کرنا فرضِ کفایہ ہے، اگر کسی نے بھی میت کو نہیں دفنایا تو جن جن مسلمانوں کو معلوم تھا، وہ سب گناہ گار ہوں گے۔

• جنازے کو قبلہ کی جانب قبر کے کنارے پر اس طرح رکھیں کہ قبلہ میت کے دائیں طرف ہو، پھر اتارنے والے قبلہ رو کھڑے ہوکر میت کو احتیاط سے اٹھا کر قبر میں رکھ دیں۔

• میت کو وبائی امراض کی وجہ سے دفنانے کے بجائے جلانا ناجائز اورحرام ہے۔

•  تدفین کے دوران شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے طبی ماہرین کی جانب سے بتائی گئی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201145

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں